’آل انڈیا کنفیڈریشن آف شیڈیول کاسٹ اور شیڈیول ٹرائب‘ کے چیئرپرسن ادت راج کا کہنا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی 70 فیصد آبادی پسماندہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ ان میں حلال خور، دھوبی، نٹ،مداری، موچی،بکو اور گڈریا سمیت 17 ایسی ذاتیں ہیں جو انتہائی پسماندہ طبقے میں آتی ہیں۔ ریزرویشن کو لے کر مسلمانوں میں کافی کنفیوژن ہے۔ علماء بھی دو حصوں میں منقسم ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مسلمانوں کے لیے الگ سے کوٹا مختص کیا گیاتو وہ فی الوقت ملنے والی سہولتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ اعلیٰ ذات کے مسلمان اس کا فائدہ اٹھائیں گے اور پسماندہ ذات کے لوگوں کے حالات مزید بدتر ہوجائیں گے۔ دوسری جانب معزز عدالت عظمیٰ نے اندرا سا ہنی کیس ڈبلیو پی(سی) نمبر 930 آف 1990 میں 16 نومبر 1992 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں طے کیا ہے کہ آئین کی دفعات(4)15اور (4)16 کے تحت ریزرویشن50فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان دفعات کے تحت درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو دیا جانے والا کل ریزرویشن 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ معاشی طور پرکمزور طبقوں(ای ڈبلیو ایس) کو دیا گیا ریزرویشن حکومت نے دفعہ(6)15 اور(6)16 کے تحت فراہم کیا ہے جو کہ آئین کے 103ویں ترمیمی قانون 2019 کے ذریعہ شامل کیا گیا تھا۔ اس طرح ای ڈبلیو ایس کو دیا گیا 10 فیصد کا ریزرویشن دفعہ (4)15 اور (4)16کے تحت دیے گئے ریزرویشن پر50فیصد کی حد کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ دفعہ (6)15 اور (6)16 کی دفعات کے تحت ای ڈبلیو ایس کو دیا جانے والا 10 فیصد ریزرویشن دفعہ(4)15اور (4)16 کے تحت درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات کو دیے گئے ریزرویشن سے الگ اور قانونی طور پر محفوظ ہے۔
اب جب سپریم کورٹ نے 50 فیصد ریزرویشن کی حد سے تجاوز کر کے ای ڈبلیو ایس کے لیے 10 فیصد کوٹے کو منظوری دے دی ہے تو پھر مسلمانوں کے لیے 5 فیصد کوٹا ریزرو کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ملک کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کا ہر ایک باشندہ ترقی کرے لیکن وہ تب ہی ترقی کر سکتا ہے جب اسے سہولتیں میسر آئیں۔ حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ ملک کے نوجوانوں کو یہ احساس دلاتے ہوئے اعتماد میں لے کہ اگر وہ ترقی کے خواہاں ہیں،تو اقتصادی حالات بہتر نہیں ہونے کی صورت میں بھی ترقی کر سکتے ہیں۔n
مسلمانوں کو ریزرویشن دینے میں کیا قباحت ہے ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS