اسرائیل سے سعودی عرب کی بڑھتی قربت کا راز کیا ہے؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں سعودی عرب کو جو مقام حاصل ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ ملک قدرتی ذرائع سے مالا مال اور عالمی سطح پر تیل فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، بلکہ اس کو یہ مقام مہبط وحی اور ارضِ اسلام ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔ علامہ اقبال نے تمام مسلمانوں کے جذبات کی نمائندگی بالکل درست طور پر کی تھی جب انہوں نے کہا تھا کہ ’محمد عربی سے ہے عالم عربی۔‘ خود سعودی عرب کا شاہی خاندان بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ اسلام سے ارض حجاز کی وابستگی کی اہمیت کس قدر زیادہ ہے اور اسی لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کی نظر میں عزت و وقار حاصل کرنے کے لئے حرمین شریفین کا استعمال، سیاسی مقصد کے لئے اس طور پر کیا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے بادشاہ اپنے نام کے ساتھ خادم حرمین شریفین کا سابقہ لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آلِ سعود اپنی سرکاری میٹنگوں میں بھی اسلام اور شریعتِ اسلامی کے دفاع کا دم وقتاً فوقتاً بھرتے رہتے ہیں۔ مہبط اسلام ہونے کی وجہ سے دنیا کے مسلمان بھی سعودی عرب کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی بہت سی کوتاہیوں سے درگزر کرتے ہوئے ان کے ساتھ محبت و اکرام کا معاملہ کرتے ہیں اور وہاں رونما ہونے والی تمام تبدیلیوں کو بڑی گہرائی سے دیکھتے ہیں، کیونکہ ان کے اثرات خواہ نہ خواہ تمام مسلم دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بڑی تبدیلی خارجہ پالیسی کے تعلق سے سعودی میں عنقریب ہی ہونے والی ہے اور اس کے اثرات صرف مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان محسوس کریں گے، کیونکہ اس کا تعلق ارض مقدس فلسطین سے ہے۔ دراصل اس سے قبل میڈیا میں صرف یہ خبریں آتی تھیں کہ سعودی عرب اپنے سفارتی تعلقات اسرائیل کے ساتھ بحال کرنے کی ریس میں ہے، لیکن اس پر باضابطہ طور پر سعودی سرکار کا کوئی بیان نہیں آتا تھا۔ اسرائیل کی طرف سے اس کے وزیر خارجہ ایلی کوہین نے تو کئی بار یہ بیان دیا ہے کہ اسرائیل کی بات چیت سعودی عرب سے جاری ہے اور جلد ہی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کا امکان پیدا ہوگا، لیکن سعودی عرب نے اپنا کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔ حالانکہ عملی طور پر اس بات کے اشارے دیئے جا رہے تھے کہ کوہین کی بات میں سچائی کا عنصر موجود ہے، کیونکہ سعودی عرب نے اپنی فضاء سے اسرائیلی جہازوں کو پرواز کرنے کی اجازت دے دی تھی اور یونیسکو کا جو پروگرام حال ہی میں سعودی عرب میں منعقد ہوا تھا، اس میں اسرائیلی وفد نے شرکت کی تھی اور اس کو چھپایا بھی نہیں گیا بلکہ میڈیا میں اس سے متعلق خبریں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ سیکورٹی معاملہ پر اسرائیل کے ساتھ تنسیق بلکہ بعض اوقات اسرائیل کے اعلیٰ سطحی لیڈران کی خفیہ طور پر سعودی عرب کی زیارت وغیرہ جیسی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہیں، لیکن اس بار جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سالانہ میٹنگ کے موقع پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان امریکہ پہنچے ہیں تو انہوں نے فوکس نیوز کو دیئے اپنے انٹرویو میں خود ہی واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والی بات درست ہے۔
انہوں نے صراحتاً یہ بھی کہا ہے کہ ہم ہر روز اس مقصد کے قریب آ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ بعض ذرائع ابلاغ میں جو خبریں چھپ رہی ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ اس مسئلہ پر بات چیت کا سلسلہ رک گیا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب ‘‘ابراہیمی معاہدہ’’ جس کی بنیاد سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے رکھی تھی اور جس کے تحت 2020 سے اب تک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراقش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات قائم کرلئے ہیں یہ سلسلہ اب سعودی عرب تک پہنچے گا۔ اس سے قبل مصر نے 1980 میں اور اردن نے 1994 میں اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بحال کرلیا تھا۔ لیکن جب سعودی عرب کے تعلقات صہیونی اسٹیٹ کے ساتھ بحال ہوں گے تو اس کی نوعیت بالکل مختلف ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسرائیل کو پورے مشرق وسطیٰ میں اعتبار حاصل ہوجائے گا اور دنیا کے وہ مسلم ممالک بھی اسرائیل کو اپنا دوست بنانے میں قباحت محسوس نہیں کریں گے، جنہوں نے اب تک فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ مانا یہ جا رہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب ہر ایک کا اپنا خاص مقصد اس ڈیل سے وابستہ ہے۔ امریکہ کا مقصد تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو چین و روس کے خیمہ میں جانے سے روکا جائے تاکہ مشرق وسطیٰ میں چینی اثر و رسوخ کے بڑھتے سیلاب پر بندھ باندھا جا سکے، حالانکہ امریکہ نے مڈل ایسٹ کے تعلق سے اپنی پالیسی میں کافی بدلاؤ کرلیا تھا اور قدیم تاریخی تعلقات کے باوجود سعودی عرب کی طرف خاص توجہ نہیں کی تھی۔ بلکہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تھا کہ بائیڈن نے 2020 کے صدارتی انتخابات کے موقع پر سعودی عرب کو اچھوت بناکر چھوڑ دینے تک کی بات کہہ دی تھی، لیکن یوکرین پر روسی جارحیت نے بائیڈن کا سارا پلان ہی چوپٹ کر دیا۔ جس وقت روس کے خلاف امریکہ کی قیادت میں پورا مغربی خیمہ پابندیاں عائد کر رہا تھا، اس وقت بائیڈن کی خواہش تھی کہ سعودی عرب بھی اس کے ساتھ کھڑا رہے، لیکن سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک نے غیر جانبداری کی پالیسی اختیار کی اور کسی خیمہ کا حصہ بننے کے بجائے اپنے مفاد کی بنیاد پر پالیسی سازی کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ سے روس پر امریکہ کی تیل سے متعلق پالیسی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوپائی۔ امریکہ چاہتا تھا کہ روس پر پابندی کے نتیجہ میں اس کے حلیفوں کو تیل کی جو قلت ہوگی اس کی بھرپائی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کردے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کو روکنے میں معاون ہوں، لیکن ہزار امریکی کوششوں اور بائیڈن کے ذریعہ اپنے اعلیٰ افسران کو خطہ میں بار بار بھیجنے کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس دوران چین اور سعودی عرب کے تعلقات اس حد تک مضبوط ہوگئے کہ ایران و سعودی عرب کے درمیان برسوں سے جاری تلخی کو اسی برس مارچ کے مہینہ میں چین کی ثالثی نے ختم کروا دیا اور دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات 7سالوں بعد پھر سے بحال ہوگئے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چین اس خطہ میں اس محاذ پر بھی کامیاب رہا، جہاں پر امریکہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔ بائیڈن کو اب احساس ہو رہا تھا کہ سعودی عرب کو اچھوت بنانے کی بات کتنی بے محل اور مضر ثابت ہو رہی تھی۔ اس کی تلافی کے لئے امریکہ نے یہ کوشش کی کہ مشرق وسطیٰ میں اپنے قدم کو دوبارہ سے جمائے اور غلطیوں کا ازالہ کرے۔ اس غرض سے خلیجی ممالک کو اقتصادی اور سیاحتی طور پر ہندوستان سے جوڑنے کے لئے ریل پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا، جس کی وسیع شکل کا اعلان جی۔20 کانفرنس کے موقع پر دہلی میں ہوا۔ اس پروجیکٹ کو ’انڈیا، مڈل ایسٹ اور یورپ اقتصادی گزرگاہ‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس کا ایک مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کا متبادل پیدا کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ گزرگاہ اسرائیل سے ہوکر گزرے گا۔ اس کے لئے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں پورے طور پر ضم کرانا ضروری ہے اور اسی لئے سعودی و اسرائیل تعلقات کا معاملہ اہمیت رکھتا ہے۔ سعودی اور اسرائیل تعلقات کی دوسری بڑی وجہ ایران ہے جس کو امریکہ اور اسرائیل دونوں ہی سیکورٹی خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ سعودی عرب بھی جس کے تعلقات حال ہی میں ایران سے بہتر ہوئے ہیں اس کو اس خطہ میں عدم استحکام کا ذریعہ مانتا ہے۔ ایسی صورت میں ایران کو قابو میں رکھنے کے لئے سعودی اور اسرائیل تعلقات کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ہی خطرہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ ایران نے بار بار یہ واضح کیا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو صرف شہری مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے اور نیوکلیئر بم بنانا اس کے پروگرام کا حصہ نہیں ہے، لیکن ان وضاحتوں پر نہ تو اسرائیل ، نہ امریکہ اور نہ ہی سعودی عرب یقین رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے محمد بن سلمان نے اپنے فوکس نیوز انٹرویو میں کہا ہے کہ اگر ایران نیوکلیئر ہتھیار بنا لیتا ہے تو وہ بھی اس کو حاصل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس کا مطلب امریکی تعاون نیوکلیئر ہتھیار بنانے میںدرکار ہوگا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کا مطالبہ ہے کہ ناٹو طرز کی سیکورٹی بھی امریکہ اس کو عطا کرے تاکہ اگر سعودی عرب پر کبھی حملہ ہو تو وہ اس کا دفاع کرنے کی ذمہ داری لے۔ ساتھ ہی امریکہ کے پاس جو جدید اسلحے ہیں وہ سعودی عرب کو مہیا کرایا جائے۔ اگر ان شرطوں کو مان لیا جاتا ہے اور فلسطینیوں کو آزاد ریاست مل جاتی ہے تو وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کے لئے تیار ہے۔ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کے لئے سعودی عرب اس لئے بھی رضامندی کا اظہار کرنے کو تیار ہے، کیونکہ اس صورت میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی تک اس کو رسائی مل جا ئے گی، جس کی وجہ سے محمد بن سلمان کو اپنا ویزن 2030 پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن سعودی عرب سے بھی زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوگا،کیونکہ اس کو پوری عرب اور مسلم دنیا میں قبولیت مل جائے گی، جس کے دور رس فوائد اس کو حاصل ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگلے 4-5مہینے میں یہ معاہدہ ہوجانے کا امکان ہے۔ بائیڈن بھی اس بات کی کوشش میں ہیں کہ 2024 کے صدارتی انتخاب سے قبل یہ معاہدہ ہوجائے تاکہ امریکہ کی یہودی لابی کی مدد سے دوسری بار ٹرمپ کے مقابلہ جیت حاصل کی جا سکے۔ اس پورے معاملہ میں فلسطینیوں کے حقوق کی رعایت کس حد تک کی جائے گی یہ کہہ پانا مشکل ہے۔ حالانکہ سعودی وزیر خارجہ نے بھی اس کو واضح کیا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر یہ معاہدہ نہیں ہوگا۔ لیکن نتن یاہو نے جن مذہبی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی ہے وہ کسی صورت بھی فلسطینیوں کو مراعات دینے کو تیار نہیں ہیں۔ کیا سعودی عرب فلسطینیوں کے حقوق کی پرواہ کرے گا اور ویسٹ بینک و غزہ سے اسرائیلی فوج و نو آبادکاروں کا انخلاء ہوگا اور وہ تمام علاقے جن پر 1967 کی جنگ میں اسرائیل قابض ہوگیا تھا ان کو فلسطینیوں کے حوالہ کرنے کو راضی ہو گا تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ سکے اور اس کے بعد ہی سعودی عرب یہودی ریاست کے ساتھ معاہدہ پر دستخط کرے گا جیسا کہ 2002 کے اندر سعودی عرب نے اسرائیل کو قبول کرنے کی شرط رکھی تھی؟ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو فلسطینیوں کو بھی شکایت نہیں ہوگی اور اس پورے خطہ کو بھی امن و استحکام نصیب ہو پائے گا۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS