عبدالماجد نظامی
اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال کا عالم یہ ہے کہ سو کروڑ سے زیادہ کی آبادی کے پاس اتنی قوت خرید تک نہیں ہے کہ وہ اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے علاوہ کوئی چیز خرید سکے، نوجونواں کی بے روزگاری کی شرح 23فیصد تک پہنچ چکی ہے، متوسط طبقہ کی تعداد اور شرح میں لگاتار کمی آ رہی ہے، خود سرکاری بیان کے مطابق80کروڑ لوگوں کو مفت کے راشن پر گزر بسر کرنا پڑ رہا ہے اور زراعت کے سیکٹر میں کسانوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ وہ اپنی زمینوں پر جی توڑ محنت کرنے کے باوجود اتنا نہیں کما پاتے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو عزت کی زندگی فراہم کر سکیں۔ مغربی بنگال کے کسانوں نے اس سال آلو کی پیداوار میں زبردست اضافہ کیا ہے لیکن جب فروخت کرنے کی بات آئی ہے تو سرکار انہیں محض 900 روپے فی کوئنٹل قیمت ادا کرنا چاہتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اتنی کم قیمت پر اگر کسان آلو بیچیں گے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے انہوں نے اس قیمت پر آلو بیچنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن اس کا کوئی متبادل حل اب تک سرکار کی طرف سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ خود مہاراشٹر میں کسانوں کی حالت اس قدر خراب ہے کہ وہ خودکشی کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں ہر روز قتل عام کا ماحول رہتا ہے اور ہندوستان سے پیسہ نکال کر لوگ دوسرے ملکوں میں جا رہے ہیں۔ روپے کی قیمت میں تو اس قدر گراوٹ آئی ہے کہ پہلے کبھی اس کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کا مسئلہ ہے تو وزیراعظم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے رہتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جس قسم کا برتاؤ حالیہ دورہ کے موقع پر ہوا، وہ دوستی کے اصولوں سے بالکل دور کی بات تھی۔ ہندوستان کی ان اشیاء پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کا اعلان ٹرمپ نے کیا جو امریکہ کو ایکسپورٹ کی جاتی ہیں اور وہ بھی اس انداز میں کہ گویا کسی دشمن ملک کے ساتھ محاذ پر فتح کا اعلان کیا جا رہا ہو۔ غیر قانونی ڈھنگ سے امریکہ پہنچنے والے ہندوستانیوں کو امریکہ نے جس غیر انسانی طریقوں سے واپس بھیجا ہے، وہ ذلت آمیز ہے۔ لیکن ان تمام معاملوں پر موجودہ سرکار کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا اور نہ ہی ہندوستانیوں کے وقار کی بحالی یا ان کے لیے متبادل بہتر روزگار کے ذرائع کا کوئی انتظام کیا گیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاریں خواہ مرکز میں ہوں یا ریاستوں میں ہر جگہ اپنی تمام تر ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بس مذہبی منافرت کے الاؤ کو روشن رکھتی ہیں تاکہ تمام سنجیدہ اور اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کو ایک موہوم دشمن کے طور پر پیش کیا جاسکے اور حسب ضرورت اس الاؤ کی آگ کو بڑھایا یا گھٹایا جاتا رہے۔ کیونکہ گزشتہ ایک دہائی کی مدت میں اس ملک کے عوام کے ذہن کو اس قدر سطحی اور فکر و عمل کو اتنا ناکارہ بنادیا گیا ہے کہ ان میں صحیح و غلط کی تمیز ہی باقی نہیں رکھی گئی ہے۔ اگر عوام کا شعور بیدار ہوتا اور ان میں اپنے مفادات کے تحفظ کا داعیہ باقی ہوتا اور ملک کی سالمیت کی ان میں فکر باقی ہوتی تو وہ اس سرکار سے سوال کرتے کہ تین صدی سے زیادہ مدت پہلے وفات پا چکے اورنگ زیب سے جنگ کا کیا جواز پیدا ہوتا ہے؟ اگر ان میں حقیقی قومیت کا عنصر پایا جاتا تو وہ اس حقیقت کو سمجھ پاتے کہ تاریخ کی من مانی تشریح سے صرف مسائل پیدا ہوتے ہیں اور سماج میں انتشار و بدامنی کی کیفیت پروان چڑھتی ہے۔ ملک و قوم کا بھلا اس سے ہرگز نہیں ہوتا ہے۔ تاریخ کے حساس پہلوؤں پر بحث ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے مناسب جگہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں جہاں دانشوران اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ تاریخ کے واقعات کو جذبات کی آندھی میں نہیں بلکہ حقائق کی روشنی میں سمجھنے اور ان سے سبق لینے کی کوشش کریں تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر بہتر مستقبل کے قیام کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اگر تاریخ کو بھی فوکلور بنا دیا جائے گا اور پیچیدہ و سنجیدہ مسائل پر نفرت انگیز بیانات دیے جانے لگیں گے تو اس کا وہی نتیجہ نکلے گا جو ناگپور اور مہاراشٹر کے دوسرے حصوں میں ہوا۔ یہ اس ملک کی بدبختی ہی ہے کہ اب تاریخ کو بالی ووڈ کی مسالہ فلموں سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی ہے بلکہ فلمیں پروپیگنڈہ مقاصد کے لیے اسی طرح بنائی جانے لگی ہیں جس طرح کبھی ہٹلر نے نازی جرمنی میں میڈیا اور فلموں کا استعمال یہودیوں کے قتل عام کے لیے کیا تھا۔ ’کشمیر فائلس‘، ’کیرالہ اسٹوری‘ اور اب ’چھاوا‘ ان چند فلموں میں شامل ہیں جن کے ذریعہ عام ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں ایک خاص طبقہ کے خلاف نفرت کے جراثیم بوئے جاتے ہیں۔ ایک طرف درباری میڈیا اور دوسری طرف ایسی فلموں نے ملک کا ماحول اس قدر پراگندہ کر دیا ہے کہ مسلم دشمنی ایک معمول کی چیز بن گئی ہے۔ اس کا سنگین نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ کہیں بلب بیچنے والے بزرگ کو کوئی اوباش ذلیل کر رہا ہے تو کہیں ٹرین میں مسلمانوں کا قتل خود ٹرین مسافروں کی سیکورٹی پر تعینات سپاہی کر دیتا ہے۔ کہیں ٹرین میں سفر کرتے ہوئے مولانا کو اس لیے مارا پیٹا جاتا ہے کہ وہ رمضان کے مہینہ میں اپنی سیٹ پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ مسلم عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے، وہ ناقابل بیان ہوچکا ہے۔ یہ سب سرکار اور پولیس کی پشت پناہی میں ہو رہا ہے۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، آسام اور اب مہاراشٹر ایسی ریاستیں بن چکی ہیں، جہاں دستوری ذمہ داریوں کا کوئی خیال تک نہیں رکھا جا رہا ہے اور تمام بڑے عہدوں پر فائز وزراء و افسران مسلم دشمنی کا اظہار بے روک ٹوک کر رہے ہیں۔ ہولی کے موقع پر اترپردیش کے ایک اعلیٰ افسر نے جمعہ اور ہولی کا جو غیر منطقی بلکہ غیر دستوری موازنہ کیا ہے، وہ صاف بتاتا ہے کہ اب یہ اعلیٰ افسران اپنے سیاسی آقاؤں سے شہ پاکر اپنی آئینی ذمہ داریوں تک سے پہلو تہی کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں کسی اخلاقی بندش کی بھی پروا نہیں کرتے ہیں۔ یہ خطرناک صورتحال بتاتی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادتوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ہر جگہ مسلم دشمنی کو اپنی ڈھال بنا لیا۔ اس ڈھال کا نام اگر مہاراشٹر میں اورنگ زیب ہے تو اترپردیش میں اس کے نام سنبھل اور گیان واپی ہیں جبکہ اتراکھنڈ میں مسلم دشمنی کی یہ ڈھال یکساں سول کوڈ، مدارس کی شکل میں تیار کی جاتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہندوستان کے عام انسانوں بالخصوص ہندو کمیونٹی کے ہر طبقہ سے بات چیت کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہندوتو کا نظریہ مسلمان دشمنی کے پردہ میں ملک کا مستقبل برباد کرنے پر تلا ہے۔ تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکاروں کو ہر جگہ اس بات کے لیے مجبور کریں کہ وہ ان مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں جن کے لیے ان کا انتخاب ہوا ہے یعنی لوگوں کے روزگار، تعلیم اور صحت کے مسائل کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور اورنگ زیب، مندر-مسجد اور دیگر ایسے جذباتی مسئلوں سے اجتناب کریں جن سے ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑتی ہو۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]