ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
جب 76 برس قبل فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے ان پر صہیونی ریاست اسرائیل کے قیام کو یقینی بنایا گیا تو بے یار و مددگار فلسطینی پناہ گزینوں کی راحت رسانی، ان کی تعلیم و صحت اور کام کاج کے لئے اقوام متحدہ نے جس تنظیم کو قائم کیا تھا اس کا نام (UNRWA) اونروا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی سب سے بڑی تنظیم ہے اور خاص طور سے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسائل کی نگرانی کرتی ہے اور ان کی ضروریات کی کفالت کے لئے پابند قانون ہے۔ یہ تنظیم ان 60 لاکھ فلسطینیوں کے لئے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے جو ویسٹ بینک، مشرقی قدس شہر، غزہ، اردن، شام اور لبنان میں منتشر ہیں اور اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کا ملک صہیونیوں کے ناجائز قبضہ سے آزاد ہوگا اور انہیں ان کی زمینیں اور ان کا گھر بار واپس ملے گا۔ اسرائیل نے ویسے تو ہمیشہ ہی اونروا کو نشانہ بنایا ہے لیکن 28 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی پارلیمنٹ کینیسٹ کے اکثر اراکین بلکہ 10 عرب اراکین کے علاوہ تمام 92 ممبران نے اونروا پر پابندی عائد کرنے کے لئے جو اپنا ووٹ دیا ہے وہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا بالکل پہلا واقعہ ہے۔ اس ووٹ کے مطابق اونروا کو نمائندگی سے محروم کیا جائے گا،اسے اپنی تمام خدمات روک دینی ہوگی اور اسرائیلی ریاست کے زیر اقتدار علاقوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی بھی طریقہ سے کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی ضمن میں اونروا پر پابندی سے متعلق قانون پاس کرنے کے علاوہ ایک مزید قانون اسرائیلی پارلیمنٹ میں پاس کیا گیا ہے جس کی رو سے اسرائیل کے کسی ادارہ یا افراد کو جو سرکاری عہدہ پر فائز ہوں اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اونروا یا اس کے زیر انتظام کسی ڈپارٹمنٹ کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھیں۔ اس کے علاوہ ٹیکس سے متعلق تمام سہولیات اور سفارتی تحفظ جو اب تک اونروا کو ملتا رہا ہے منقطع کردیا جائے گا۔ دراصل اگر اسرائیل کے اس قانون کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اندازہ ہوگا کہ عملی طور پر صہیونی ریاست نے اس معاہدہ کو کالعدم قرار دیا ہے جس پر اس نے خود ہی اقوام متحدہ کی نگرانی میں اونروا کے ساتھ 1967 میں کیا تھا اور جس کی رو سے اس عالمی تنظیم کو اسرائیل، ویسٹ بینک، غزہ اور قدس شہر میں اپنے کام کو سر انجام دینے کی اجازت تھی۔ اسرائیل کا اخبار ’ہاریز‘ نے گرچہ ایک اسرائیلی سرکاری افسر کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ اس قانون سے نیتن یاہو اور اس کے وزراء مشکل میں پڑ جائیں گے کیونکہ اس کی وجہ سے اسرائیل کا ٹکراؤ عالمی برادری کے ساتھ ہوگا، لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے کب عالمی قوانین یا عالمی برادری کی پرواہ کی ہے جو اونروا پر پابندی عائد کرنے کے سلسلہ میں وہ آج کرتا۔ اس میں خود عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی بھی غلطی ہے جس نے ہمیشہ اسرائیل کو خصوصی مراعات سے نوازا اور کبھی بھی اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کے لئے اس کی سرزنش نہیں کی،لیکن اس پہلو پر گفتگو پھر کبھی ہوگی۔ اس وقت سر دست اونروا پر عائد کی گئی پابندیوں کے نتیجہ میں فلسطینیوں کو پیش آنے والے مسائل کو سمجھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اونروا کا وجود اسرائیل کی آنکھ میں ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے البتہ 7 اکتوبر کے بعد سے نہایت منظم ڈھنگ سے مسلسل طور پر اس کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ پہلے پہل اونروا کے 9 ممبران پر 7 اکتوبر کے آپریشن میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیا اور اس کے بعد دیگر 19 افراد پر حماس کا رکن ہونے اور آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ میں ملوث ہونے کا الزام اسرائیل نے لگا دیا، لیکن اس کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت آج تک پیش نہیں کر سکا۔ تہمتوں کا یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوا کہ اسرائیل نے یہاں تک کہہ دیا کہ اونروا کے 1200 ملازمین دراصل حماس کی رکنیت رکھتے ہیں۔ اونروا نے جب اس بارے میں معلومات یا ثبوت پیش کرنے کو کہا تو آج تک اسرائیل نے ثبوت مہیا کرانے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اونروا پر بلا ثبوت الزامات کا یہ سلسلہ کبھی رکا ہی نہیں۔ مثلاً اسرائیل نے اونروا کے ایک ملازم پر یہ تہمت لگائی کہ اس نے ایک اسرائیلی کو یرغمال کرکے 43 دنوں تک اپنے گھر میں رکھا تھا، لیکن اس بارے میں پھر کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا۔ اونروا پر یہ مضحکہ خیز الزام بھی لگایا گیا کہ وہ حماس کو اس بات کے لئے سہولیات مہیا کرتا ہے کہ وہ ان کے اسکولوں کے نیچے سرنگ بنائیں۔ یہ بات گرچہ نہایت مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہو لیکن مغربی ملکوں نے اسرائیل کے اس الزام کو نہایت سنجیدگی سے لیا اور 18 ملکوں نے اونروا کو دی جانے والی فنڈنگ جنوری 2023 کے بعد سے روک دی۔ حالانکہ ان میں 17 ملکوں نے اپنی فنڈنگ کو دوبارہ سے بحال کردیا ہے کیونکہ انہیں معلوم پڑ گیا کہ یہ الزامات بے بنیاد تھے، لیکن امریکہ نے پھر بھی اپنی فنڈنگ جاری نہیں کی۔ بس اتنا سا وعدہ کر لیا کہ مارچ 2025 سے وہ اپنی فنڈنگ کا آغاز کرے گا۔
اونروا نے اسرائیل کی ان بے بنیاد الزامات کو حقائق کی روشنی میں واضح بھی کیا ہے۔ مئی 2024 میں باضابطہ اسرائیل کی 14 تہمتوں کی فہرست اور ان کے بطلان پر دلیل پیش کرکے یہ بتایا تھا کہ اسرائیل صرف من گھڑت کہانیاں بناکر عالمی برادری کو گمراہ اور اونروا کی شبیہ مجروح کر رہا ہے تاکہ متاثر فلسطینیوں کو مدد نہ مل سکے۔ بعض تجزیہ نگار کا ماننا ہے کہ منظم ڈھنگ سے اونروا کو نشانہ بنانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو تعذیب میں مبتلا کرنے کے علاوہ انہیں حق واپسی سے محروم کر دیا جائے۔ البتہ معروف تجزیہ کار اور الجزیرہ کے کالم نگار علی بویدی کا کہنا ہے کہ یہ پوری سچائی نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ دراصل 1948 کے نکبہ میں صہیونی مجرموں نے فلسطینیوں کے حق میں جن بدترین جرائم کا ارتکاب کیا تھا اور ان کی نسل کشی کے عمل میں ملوث ہوئے تھے ان گناہوں کے دھبوں سے وہ اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں اور یہ اصول بنانا چاہتے ہیں کہ جب پناہ گزینی کا مسئلہ ہی کبھی نہیں رہا ہے تو اس کا مطلب کوئی نکبہ ہوا ہی نہیں تھا۔ اس سے قبل سابق امریکی صدر اور موجودہ امیدوارِ امریکی صدارت ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی نکبہ متاثرین اور ان کی اولادوں سے پناہ گزینی کا وہ ٹیگ چھین لینے کی ہر ممکن کوشش کی تھی جس کی رو سے ان کا معاملہ عالمی سطح پر اہمیت کا حامل بنا ہوا ہے۔ علی بویدی کے مطابق اونروا پر پابندی عائد کرنے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اقوام متحدہ میں اپنے جواز کو اس طور پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ یو این کی قرارداد نمبر 194 کو ہی اڑا دے۔ اس قرارداد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 11 دسمبر 1948 کو پاس کیا تھا۔ اس کی رو سے اسرائیل کے وجود کا جواز اس وقت تک معلق ہے جب تک اقوام متحدہ کی ایک دوسری قرار داد نافذ نہیں ہوجاتی جس کو یو این نے مذکورہ بالا قرار داد سے بھی قبل 19 نومبر 1947 کو پاس کیا تھا۔ اس قرار داد کو تقسیم فلسطین قرار داد نمبر 181 سے موسوم کیا جاتا ہے۔ جہاں تک قرار داد نمبر 194 کا تعلق ہے تو وہ اسرائیل کے گلے کی ہڈی اس لئے بنی ہوئی ہے کیونکہ اس میں تسلیم کیا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی اپنی اراضی تک واپسی کا حق حاصل ہے۔ اس میں یہ بھی درج ہے کہ فلسطینیوں کو ان کے نقصانات کا معاوضہ دیا جائے گا اور ان کی جائیدادیں واپس کی جائیں گی۔ اسرائیل جانتا ہے کہ 1993 میں اوسلو معاہدہ پر دستخط کے بعد چونکہ قرار داد 181 کی معنویت ختم ہوچکی ہے کیونکہ پی ایل او نے تاریخی فلسطین کی 78 فیصد زمین سے دست برداری کا اعلان کر کے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا تھا۔ لہٰذا اب جواز کے لئے ایک ہی قدم باقی ہے کہ قرار داد 194 کو ختم کیا جائے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اونروا کے ارد گرد اتنا مضبوط حصار قائم کر دیا جائے کہ وہ بے دست و پا بن کر رہ جائے لہٰذا ایسا قانون بنایا جائے جو مقصد کے حصول میں معاون ہو۔ ایسی صورت میں 194 اقوام متحدہ کے رجسٹر میں صرف ایک نمبر بن کر رہ جائے گا اور اونروا اپنی مفوضہ ذمہ داریاں ادا کرنے میں قاصر ہوگا۔ ساتھ ہی جب فلسطینیوں سے پناہ گزیں ہونے کا ٹیگ چھین لیا جائے گا تو پھر ان عرب ملکوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ فلسطینیوں کو اپنا شہری مانے جہاں وہ آج پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس طرح اسرائیل کا دیرینہ خواب پورا ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ میں ایک ریزولیوشن پیش کر دیا جائے گا کہ 194 کو ختم کیا جائے کیونکہ فلسطینی پناہ گزیں نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی اور اس طرح اسرائیل اپنے جواز کی سند حاصل کر لے گا۔ کینیسٹ میں پاس کردہ حالیہ قانون جب نافذ العمل ہوگا اس صورت میں فلسطینیوں کو اونروا سے صحت، تعلیم، ریلیف اور دیگر میدانوں میں مل رہی خدمات پر جو برے اثرات مرتب ہوں گے وہ اس پر مستزاد ہیں،لیکن اونروا کا متبادل کیا ہوگا ابھی تک اس پر کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ کیا اسرائیل کے لئے یہ سب کچھ کرپانا اتنا آسان ہوگا؟ غزہ میں جاری اس کی بربریت اور عالمی برادری کی خاموشی تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہوگا۔ البتہ اچھی بات یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے اونروا پر پابندی عائد کرنے سے متعلق قانون پاس کیا ہے تب سے عالمی سطح پر اس کے خلاف آوازیں بڑی تیزی سے اٹھ رہی ہیں اور تقریباً کوئی بھی اس عمل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فلسطینی قیادت عالمی برادری کے اس رد عمل کو مثبت ڈھنگ سے استعمال کرکے کیا اس بات کے لئے اقوام متحدہ اور اس کے اراکین کو قائل کرپاتی ہے کہ قرار داد 194 کی معنویت کو ختم کرنے کی اسرائیلی کوشش کے مقابلہ میں ایسا اقدام کیا جائے کہ خود اسرائیل کو ہی اقوام متحدہ کی رکنیت سے نکال دیا جائے تاکہ ایک پرامن عالمی نظام کا خواب پورا ہوسکے کیونکہ اسرائیل نے اپنے وجود کے روز اول سے ہی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک امن پسند ملک بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)