عمیر انس
مسلمانوں کے مسائل پر تقریریں، سمینار اور جلسے سننے والے تمام حضرات جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرنے کے دوران سب سے زیادہ جن باتوں کو دہرایا جاتا ہے، ان میں یہ تاثر بہت غالب رہتا ہے کہ جیسے ہندوستانی مسلمان ملک کی ایسی آبادی ہے جو ملک کی باقی آبادی سے مختلف ہے اور اس کے کامیاب اور ناکام ہونے، اس کے ترقی کرنے اور پسماندہ رہ جانے کے اسباب باقی لوگوں سے جدا ہیں، اس میں یہ بھی تاثر غالب ہوتا ہے کہ گویا کہ مسلمان کوئی ایسی آبادی ہیں جن کا وزن اور راسخ ملکی سطح کا ہے اور ان کا میدان کار بھی ملکی سطح کا ہے، حالانکہ مسلمان بنیادی طور پر پہلے ایک شہری ہیں اور بعد میں اپنے مذہبی تشخص سے پہچانی جانے والی اقلیت۔ اپنے شہری حقوق اور فرائض میں وہ عموماً غیر مسلم شہریوں کے برابر ہیں، لیکن اکثر جوش اور حمیت میں ہمارے یہاں بار بار کہا جاتا ہے کہ بیس کروڑ مسلمانوں کی طاقت یہ ہے، یہ ایسی ہونی چاہیے، لیکن مسلمان اس ملک میں کوئی ایسی جمعیت نہیں ہیں جو انہیں غیر مسلموں سے ان کے حقوق اور اختیارات کے معاملے میں کوئی امتیازی حیثیت دلاتی ہو، مسلمانوں کے ملکی مسائل میں پہلا نقطہ نظر ایک شہری ہونے کا نقطہ نظر ہونا چاہیے، شہری ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی پہچان کھو دیں گے بلکہ اس لیے کہ آپ کی گفتگو کا اور برادران وطن سے آپ کے تعلقات اور ان کے ساتھ لین دین کا پہلا نقطہ نظر ایک شہری حقوق کی حساسیت پر مبنی ہو، مثال کے طور پر ہزاروں مسلمان سماج وادی پارٹی، کانگریس، جیسی جماعتوں میں ہیں لیکن ان جماعتوں کے مسلمان اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات اور گفتگو کی بنیاد ایسی لگتی ہے جیسے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو کرکے کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جو وہ اصولاً کر نہیں سکتے تھے لیکن گویا کہ وہ مسلمانوں کے لیے خاص رعایت اور ہمدردی میں ایسا کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ملک کی کسی سیاسی جماعت کے پاس اقلیتوں کے دستوری حقوق کی پاسداری کے لیے کوئی مستقل پالیسی ہے ہی نہیں، اگر مسلمانوں کا دباؤ ہوگا تو کچھ ہو جائے گا، اگر فرقہ پرست طاقتوں کا دباؤ زیادہ ہوگا تو ان کا موقف غالب رہے گا، مسلمان بحیثیت شہری ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہیں کہ ان کے مسائل کو وہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے اسٹیج سے بول سکیں، اپنے اخبارات میں لکھ سکیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی سبھی سیاسی جماعتوں کے اندر مسلسل کم بھی ہو رہی ہے اور کمزور بھی، مسلمان بحیثیت شہری اپنی طاقت تسلیم کرانے میں، اپنے مطالبات منوانے میں، اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے میں کافی حد تک ناکام ہیں، سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے لیے مسلمان ہونے کو وجہ سے افطار، چادر پوشی وغیرہ کر سکتی ہیں، وہی جماعتیں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے مطابق جائز طور پر اسکول، اسپتال، سڑکیں، نوکریاں دینے کا وعدہ کبھی نہیں کرسکتیں، خود مسلمانوں نے بھی یہ مان رکھا ہے کہ حکومت کے سامنے ان کے بات کرنے کے لیے صرف پرسنل لا، حج، وقف، عرس اور افطار کے موضوعات ہیں لیکن مسلمان محلوں اور جماعتوں کی طرف سے بجلی، سڑک، پانی، روٹی، کپڑا، مکان کے لیے کوئی احتجاج، مظاہرہ اور ریلیاں نہیں کی جائیں، مسلمانوں کے معاشی حقوق کے مطالبوں کے لیے ملت کی شخصیات اور جماعتوں نے گزشتہ پچاس سالوں میں شاید ہی کوئی تحریک چلائی ہو اور مظاہرے کیے ہوں، یہی وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت مسلمانوں کے مسائل سے واقف ہے اور نہ ہمدرد ہے، بلکہ اب یہ سمجھتی ہے کہ غالباً مسلمان اس ملک کے وسائل دوسروں سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔ جب تک مسلمان اپنے شہری حقوق کے لیے برادرانِ وطن اور سبھی سیاسی جماعتوں سے سرگرمی کے ساتھ تبادلہ خیال نہیں کریں گے، اس وقت تک یہ جماعتیں اور ان کے حمایتی مسلمانوں کے بقیہ مسائل سے بھی کوئی ہمدردی نہیں دکھا سکتیں، جبکہ صحیح سیاست یہی ہوتی کہ مسلمانوں کے مسائل پر احتجاج، مظاہرے، مطالبے سب سے زیادہ ان کو کرنے چاہیے جو ان کا ووٹ حاصل کرتے ہیں، لیکن ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ سبھی سیاسی جماعتوں میں مسلمانوں کی حصے داری محض ایک مہمان یا جز وقتی ملازم کی طرح ہے، سیاسی جماعتوں سے اور سیاست سے اس قسم کے تعلق بدلے بغیر مسلمان اس ملک کی شہری سیاست کا حصہ نہیں بن سکتے۔
اسی طرح سے مسلمانوں کی سبھی عوامی گفتگو میں یہ تاثر بھی غالب رہتا ہے ہندوستانی مسلمان گویا کہ ایک قومی سطح کے سیاسی پلیئر ہیں، ان کے جلسے، رسالے، میمورنڈم، سرگرمیاں اکثر ملکی اوربین الاقوامی موضوعات سے بھری رہتی ہیں، ان کی جماعتوں کی تشکیل بنیادی طور پر ملکی اور بین الاقوامی نقطہ نظر کے مطابق ہوتی ہے، حالانکہ مسلمان ایک قومی سطح کی آبادی کے بجائے ایک مقامی اور ریاستی سطح کی آبادی ہیں، ان کے سیاسی تجربے، سیاسی تحریکیں، جلسے اور رسالے بنیادی طور پر مقامی اور ریاستی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہونے چاہئیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ ایک ایسی اسمبلی سیٹ جہاں مسلمان بیس فیصد سے زائد ہیں، ان کے تعلقات غیر مسلم ووٹرز سے اتنے کمزور کیسے ہو سکتے ہیں؟ ان کے مسائل، ان کے مسائل سے الگ کیسے ہو سکتے ہیں اور پھر اقتدار میں شرکت اور حکومت پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی میں وہ ان سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟ لیکن ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ عموماً مقامی سطح پر تھوک کے بھاؤ کسی امیدوار کو ووٹ دینے کے بعد اس اسمبلی کے مقامی مسائل میں ان کی دلچسپی اس درجے کی نہیں رہتی جس درجے کی غیر مسلموں کی ہوتی ہے، جیسے عام شہری مسائل میں مداخلت اور رائے زنی کا پہلا حق غیر مسلموں کا ہے اور مسلمان صرف قبرستان، افطار، کے لیے محدود رہنے کے لیے آئے جائیں، مقامی سطح پر غیر مسلم حضرات کے سیاسی نیٹ ورک میں، مقامی سطح کے اتحادوں میں ان کی شمولیت ملکی سطح کے اتحاد میں شمولیت سے کہیں زیادہ ضروری ہے، کیونکہ سیاسی فائدوں کی تقسیم، روٹی کپڑا، مکان، سڑک، اسکول، اسپتال کے لیے بنیادی وسائل مقامی سیاست میں مضبوط شرکت سے ہی ممکن ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا اور سمجھانا بھی ضروری ہے مسلمان ایک ملکی اور بین الاقوامی پلیئر نہیں بلکہ مقامی اور ریاستی سطح کے پلیئرز ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ تلنگانہ کے مسلمان اور خاص طور پر حیدرآباد کے مسلمانوں کے سارے وسائل اردو میڈیا میں خرچ ہوتے ہیں لیکن تیلگو میڈیا میں اثر انداز ہونا وہ ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ اردو کے درجنوں اخبارات رکھنے والے تلنگانہ، آندھرا اور مہاراشٹر کے مسلمانوں کے پاس ان ریاستوں کی زبانوں کے اخبارات اور ٹیلی ویژن میں ان کا کوئی قابل ذکر میڈیا نہیں ہے، کیرالہ کی مثال سے ثابت ہے کہ وہاں کے مسلمان اپنی مقامی سیاست میں مقامی زبان کے ذریعہ بہت اثر انداز ہیں، یہ تجربہ ہر ریاست میں ممکن ہے۔
(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازت یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)