جاوید اختر بھارتی
رب کائنات نے انسانوں کو اشرف المخلوقات کا بنایا، دیکھنے کیلئے آنکھیں عنایت کیں، پکڑنے کے لئے اور دوسروں کو سہارا دینے کے لیے ہاتھ عطا فرمایا، چلنے کیلئے پاؤں بخشا، سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ لینے کے لئے دل اور دماغ بھی دیا جب انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے پیدا کیا ۔جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند ہی رہتی ہیں اور جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں کھلی رہتی ہیں۔ یہ دونوں مواقع کی نوعیت خود انسانوں کے لئے درس عبرت ہیں اگر غور کیا جائے تو دونوں موقع پر گہرا راز فاش ہوتا ہے۔للہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کہتاہے کہ دنیا میں جاکر آخرت کو بھول نہ جانا بلکہ یہ یاد رکھنا کہ کل پھر تجھے دنیا کو خیرآباد باد کہنا ہے قبر کے راستے تجھے پھر آخرت کی منزل تک آنا ہے میں نے تیرے جسم کے اندر جو روح ڈالی ہے اسے پاکیزہ رکھنا کیونکہ تیرا جسم تو بعد میں میرے پاس آئے گا لیکن روح قفسِ عنصری سے پرواز کر کے تیرے جسم سے پہلے میرے پاس آئے گی اور مجھے تیری روح ویسی ہی چاہئیے جیسی میں نے تجھے عطا کی تھی ۔روح کے ساتھ خرد برد نہ کرنا، روح کو داغدار نہ بنانا، روح کو زنگ آلود نہ بنا نا اور یہ تبھی ممکن ہے جب تو دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھے گا اور مانے گا۔ اس لئے دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہنا اگر تو ان باتوں کو بھول کر سو برس کا سامان بھی اکٹھا کریگا تو اتنا یاد رکھنا کہ تجھے ایک پل کی بھی خبر نہیں ہوگی۔ وہ ساری چیزیں خوب کھانا پینا جو میں نے حلال کی ہیں اور کھانے پینے کے بعد میرا شکر ادا کرنا۔ ہاں زمین پر فساد برپا نہ کرنا، کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھانا، غریبوں اور مسکینوں سے نفرت نہ کرنا، یتیموں اور بیواؤں کا حق نہ مارنا، انسان ہوکر انسان کے ساتھ ناانصافی نہ کرنا، حکمرانی حاصل ہونے کے بعد رعایا پر ظلم نہ کرنا اور میری بندگی سے منہ نہ موڑنا، میرے محبوب کی نافرمانی نہ کرنااور اپنے بڑوں کی عزت کرنا اور اپنے سے چھوٹوں پر پیار شفقت و محبت کی نظر رکھنا اور زنا کے قریب بھی مت جانا اور خبردار کسی بھی چیز پر گھمنڈ و تکبر نہ کرنا اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ۔انہیں کبھی بھی تکلیف نہ دینا ،اتنا سب کچھ دنیا میں یاد رکھا اور اس پر عمل کیا تو تیری دنیا بھی کامیاب ہوگی اور آخرت بھی کامیاب ہوگی۔
بچہ دنیا میں آتاہے تودوسروں کامحتاج ہوتا ہے۔یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے واضح اشارہ ہے کہ ائے میرے بندے دیکھ تیری کوئی حقیقت نہیں ہے ۔تجھے پیدا کرنے والا میں اور تجھے چلانے والا بھی میں ۔ یاد رکھنا میرے احکام کو صرف ایک فسانہ تصور نہ کرنا اور یہ بھی یاد رکھنا کہ جب تو موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگا تو میں تیری آنکھوں سے پردہ ہٹا دوں گا اور تو میری جنت و جہنم کو دیکھ لے گا ہاں اب اس کے بعد مہلت مانگے گا تو تجھے مہلت نہیں دی جائے گی۔ میں رحمٰن و رحیم ہوں تو جبار و قہار بھی ہوں اس لیے تو صرف رحمٰن و رحیم سمجھ کر میری جباریت و قہاریت کو بھلا مت دینا۔یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر حال میں موت کا سامنا کرنا ہے ۔ساری کی ساری مخلوق کو موت کے گھاٹ اترنا ہے ۔ حشر کا میدان قائم ہوگا حساب کتاب ہوگا نیکیاں تولی جائیں گی۔ نفسی نفسی کا عالم ہو گا کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا باپ بیٹا کوئی کسی کو نیکی دینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔محسن انسانیت خاتم الانبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے امتیوں کی شفاعت کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سفارش کریں گے اور آپکی سفارش قبول کی جائے گی ۔دنیا میں جس کے پاس علم ہوگا وہ بھلا کیسے غافل رہ سکتا ہے۔ جسے احساس ہوگا اس کے دل میں خدا کا خوف ہوگا وہ نہ کبھی بھرپیٹ کھانا کھائے گا اور نہ پوری نیند سوسکے گا۔ سکندر بادشاہ اکثر قبرستان جاتا اور بوسیدہ ہڈیوں کو ہاتھوں میں لیکر یہی کہتا کہ اے ہڈیوں کل تم میرے جیسی تھی اور کل میں تمہارے جیسا ہوجاؤنگا اسے اتنا احساس تھا کہ اس نے وصیت کی تھی کہ مرنے کے بعد جب میری تکفین و تدفین کرنا تو میرے دونوں ہاتھوں کو کفن سے باہر نکال دینا تاکہ دنیا دیکھے کہ سکندر ذوالقرنین بند مٹھی لیکر دنیا میں آیا تھا لیکن کھلا ہاتھ اور خالی ہاتھ دنیا سے چلا گیا ۔
آدمی کا جسم کیا ہے جس پہ شیدا ہے جہاں ایک مٹی کی عمارت اور ایک مٹی کا مکاں
qq