عمیر انس
مسلمان بیس کروڑ ہیں تو لوگوں کو امید ہوتی ہے، ہونی بھی چاہیے کہ ان کے محلے اور شہر میں ویسی ہی سڑکیں، مکان، روزگار، کارخانے اور بازار ہوں جیسے غیر مسلم شہریوں کے محلوں میں ہوتے ہیں، ان کو بھی خواہش ہونی چاہیے کہ سیاست میں وہ بھی اسی طرح آگے بڑھ سکیں جیسے کوئی عام غیر مسلم سیاسی کارکن معمولی کارکن سے وزارت تک پہنچ جاتا ہے، جیسے کوئی سرکاری افسر قاعدے کے مطابق ترقی پاتا ہے، کوئی فیکٹری اور انڈسٹری گروتھ کرتی ہے، جیسے کوئی چٹکلے سنانے والا خود کا شو چلاتا ہے، کوئی فلمیں بناتا ہے، آخر محنت اور جد وجہد کرکے کامیاب ہونے اور بلندی تک پہنچنے کے جو راستے غیر مسلم شہریوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں مسلمان شہریوں کے لئے کیوں نہیں کھلے ہیں؟ غیر مسلم سیاستدان مسلمان عوام کی توقعات اور ان کی ضرورتوں کے بارے میں کیا تصور رکھتے ہیں یہ بڑا معمہ ہے۔
آپ خود سے پوچھیں کہ ملک کی سیاسی پارٹیوں کے لئے آئیڈیل مسلمان اور مسلمان لیڈر کیسا ہوتا ہے؟ جو ووٹ تو خوب بٹور کر لائے لیکن بدلے میں کچھ نہ مانگے، سیاسی جماعتیں خواہ وہ بی جے پی ہو یا کانگریس یا علاقائی جماعتیں، انہیں ایسا مسلمان نمائندہ چاہیے جو بے زبان ہو، جو ملت کے مطالبات کی ترجمانی کرنے کی بجائے ملت کے مطالبات کو فراموش کرنے کو پارٹی سے وفاداری سمجھے، ایسے مسلمانوں کو اپنا نمائندہ بنانا چاہتی ہیں جن کی تقریریں اور بیانات تو دھماکہ خیز ہوں لیکن جو ایک عدد انتخاب جیتنے کی بنیادی سماجی انجینئرنگ کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں۔ مسلمانوں کے ایسے سیاسی نمائندے جو اپنی خود کی سوشل انجینئرنگ کرکے اپنی حمایت کی بنیاد پر سیاست میں موجود ہوں ان کو سیاسی جماعتیں ہمیشہ کنارے رکھنا چاہتی ہیں۔ آپ بغور دیکھیں کہ سبھی سیاسی جماعتیں بڑی چالاکی سے اپنی پارٹی کو اس طرح سے رکھتی ہیں جس میں مسلمان لیڈروں کے لئے برابری کی سیاست کا موقع ہی نہ ہو، سبھی سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مسلمان صرف مسلمانوں کے رہنما رہیں لیکن وہ سبھی قوموں کے رہنما کہلائیں، جو مسلمان غیر مسلموں میں بھی مقبول ہونے لگے تو اس کو فوراً حاشیے پر لایا جائے۔ مسلمانوں کو غیر مسلم محلوں میں خطاب کے لئے نہیں بلایا جاتا، پسماندہ ہندوؤں کے درمیان تقریر کے لئے نہیں بلایا جاتا، انہیں غیر مسلم محلوں سے الیکشن لڑنے کے لئے موقع نہیں دیا جاتا خواہ وہ مسلم امیدوار غیر مسلموں میں کتنا ہی مقبول نہ ہو جائے، اسی طرح سے سبھی سیاسی جماعتوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کی لن ترانی صرف مسلم عوام کو سنانے کے لئے ہے۔ فرقہ وارانہ اتحاد کے جتنے جلسے غیر مسلم عوام کے لئے اور ان کے درمیان ہونے چاہئے اس کے بجائے وہ مسلم محلوں میں ہوتے ہیں، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جو عوامی جلسے غیر مسلم عوام کے درمیان ہونے چاہیے وہ بیشتر مسلمانوں کے درمیان ہی منعقد ہوتے ہیں۔ غیر مسلم محلے میں جب یہی رہنما تقریریں کرنے جاتے ہیں تو وہاں ان کے موضوعات روز مرہ کے مسائل ہو تے ہیں، وہاں انہیں حقیقی لین دین کرنا پڑتا ہے۔ پورے شمالی ہند میں جہاں مسلمانوں کی نئی آبادیاں آئی ہیں، ان میں اکثر ایسی ہیںجیسے وہ کسی انتہائی غریب افریقی ملک کی آبادی ہو، اوکھلا اور شاہین باغ ایک مثال ہیں، جنہیں مسلمانوں کی نئی آبادی کی ایک ناکام مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ خدا جانے علاقے کے مسلمان لیڈر اپنے کانگریسی، بی جے پی، سماجوادی، بی ایس پی کے رہنماؤں کے ساتھ کیا باتیں کرتے ہیں، اپنے علاقے کے بارے میں، پسماندہ مسلمانوں کی سیاست نے بھی توجہ حاصل کی ہے جس میں پسماندہ مسلمانوں کے رہنماؤں کو سکھایا جارہا ہے کہ ان کو پسماندہ مسلمانوں کے لئے اسکول، اسپتال اور تعلیم روزگار میں ریزرویشن کی کوئی ضرورت نہیں ان کی ترقی صرف اشراف مسلمانوں کو گالیاں دینے سے ہو جائے گی۔ اتنے بیوقوف تو دلت ہندو بھی نہیں ہیں، ان سے آپ پوچھیں کہ برہمن کو گالیاں دینا اہم ہے یا روزگار اور تعلیم میں ریزرویشن، لیکن آپ یہی سوال آج کل کے پسماندہ مسلمانوں کی تحریک چلانے والوں سے نہیں پوچھ سکتے۔
اس سیاست میں سب سے کمزور کڑی مسلمانوں کے مذہبی رہنما ہیں، جیسے کانگریس پارٹی چاہتی تھی کہ مسلمان اپنا ووٹ روٹی کپڑا مکان، سڑک اسپتال اور اسکول کے مطالبوں کے بجائے چند خوبصورت داڑھیوں اور جبہ و دستار کے نام پر قربان کردیں ویسے ہی اب بی جے پی نے بھی اپنا دامن ان تمام علما اور صوفیا کے لیے کھول دیا ہے جو بی جے پی کے لئے ایک خالی چیک پر دستخط کرکے ملت کی نمائندگی کر سکیں۔ عالمی صوفیا کانفرنس ہوئی تھی لیکن اسکا نتیجہ اتنا بھی نہیں نکلا کہ کم از کم ایک انٹرنیشنل صوفی یونیورسٹی، یا صوفی اسٹڈیز کا مرکز، ایک صوفی ٹی وی چینل یا کسی بزرگ کے نام پر ایک اسکالرشپ، خواجہ چشتی کے بارے میں ایک ٹی وی ڈرامہ یا کم از کم ایک پارک، ایک سڑک کا ہی نام کرن کرا لیتے۔ مسلمان مذہبی رہنما اور سیاسی جماعتیں دونوں ہی فوٹو سیشن کے ضرورتمند ہوتے ہیں تو یہ مبینہ صوفی کانفرنس اس مقصد کو پورا کرنے کا بہانہ محض رہ گئی ہیں۔ مجال ہے کہ کوئی مذہبی رہنما حکومت اور سیاست کے اپنے مبینہ قریبی رہنماؤں اور وزیروں سے اسپتال، اسکول، اسکالرشپ، سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد پر گفتگو کر لے۔ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کی حکومتوں نے بابا رام دیو سمیت سینکڑوں ہندو مذہبی رہنماؤں کو زمینیں خیرات کیں، سنگھ سے وابستہ افراد کو اسکول، کالج، یونیورسٹی اور میڈیکل کالج دیے اور مسلمان رہنماؤں کو کیا ملا؟ اتر پردیش کے ایک بھی مدرسے کے پاس اپنا میڈیکل کالج، ڈگری کالج، اسکول جیسی کوئی چیز نہیں ہے لیکن وزیر اعلیٰ ان کے ساتھ تصویر لینے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی عوامی سیاست در اصل ایسے سرکاری مسلمانوں کے حوالے ہے جو عوام کے درمیان ایک عدد انتخاب بھی جیت نہیں سکتے، کیونکہ انتخاب کے لئے انہیں متعین وعدے کرنے پڑتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ان پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ کیرالہ کے مسلمان اس معاملے میں مضبوط ہیں کہ ان کے پاس اگر مذہبی لیڈرشپ ہے تو ویسی ہی طاقتور سیاسی لیڈرشپ بھی ہے، اس لئے کیرالہ میں سیاسی مسلمان سرکاری مسلمان سے زیادہ طاقتور ہے۔
کیا ہو اگر آپ کے درمیان ایسے مسلمان بھی ہوں جو مسلمانوں کے سیاسی مفادات کو جانتے اور سمجھتے ہوں اور اس کے لئے اپنی پارٹی کے غیر مسلموں کو رضامند کرنے کی صلاحیت اور دلیلیں بھی جانتے ہوں۔آپ کے درمیان پائے جانے والے سیاسی رہنما کیسے ہیں؟ کیا انہیں معلوم ہے کہ سچر کمیٹی کیا ہے، کس علاقے میں اور حلقہ انتخاب میں بیروزگار مسلمانوں کی تعداد کیا ہے، ان کے علاقے میں مسلمان اسکولس کیسے برباد ہو رہے ہیں۔ کیسے ڈگری کالج فنڈس کی کمی اور انتظامیہ کی جہالت کے سبب برباد ہو چکے ہیں۔ آپ مسلمان محلوں میں آنے والے غیر مسلم رہنماؤں کی تقریروں کا جائزہ لیں، ان کی تقریروں میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے مکان، اسکول، اسپتال جیسے حقیقی مسائل کے۔ جامعہ اور علیگڑھ کے فنڈس کم کر دیے گئے، کسی مسلمان رہنما کو احتجاج کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، وقف کی جائیدادیں تباہ ہوتی ہیں تو ہوں ہمارے رہنماؤں کو احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔یہ کون سی سیاست ہے جو ہندوستانی مسلمان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور پانچویں سب سے بڑی معیشت میں کر رہے ہیں؟
(مضمون نگار انقرہ یلدرم بیازت یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]