آخر، گاندھی کا جرم کیا ہے؟

0

’آزادی کا کوئی مطلب نہیں، اگر اس میں غلطی کرنے کی آزادی شامل نہ ہو۔‘ مہاتماگاندھی نے جب اپنے شاندار نظریہ سے خیالات کی دنیا کو تقویت بخشی ہوگی، تب کیا انہیں اس بات کا پیشگی اندازہ ہوگا کہ آزاد ملک میں سیوڈو قوم پرستی کا چولہ اوڑھے نکمّے ناکارہ، اوچھے اور غیرمہذب شہریوں کا ایک ایسا جھنڈ بھی اُبھرے گا جو نہ صرف ان کے اس قول کی غلط تشریح کرے گا بلکہ اس عظیم قربانی کا مذاق بھی اڑائے گاجس کا پوری انسانیت دہائیوں سے اعتراف اور احترام کرتی آئی ہے۔
تازہ ترین حوالہ باپو پر کالی چرن مہاراج کے اس غیرمہذب تبصرہ کا ہے جو چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کی دھرم سنسد میں کیا گیا۔ اس دھرم سنسد میں ہندوستان کے بابائے قوم کو گالی دینے کے جرم کا ارتکاب ہوا اور ان کے قاتل گوڈسے کی کسی ہیرو کی طرح تعریف کی گئی۔ رائے پور میں جو ہوا، اس کی فوری وجہ ہری دوار کی دھرم سنسد میں مکدر کیا گیا ماحول ہے جہاں ضرورت پڑنے پر سماج کے ایک خاص طبقہ کے مکمل خاتمہ کی کھلے عام اپیل کی گئی۔ ممکن تھا کہ اگر اتراکھنڈ سے اٹھی آواز پر بروقت قانونی کارروائی ہوگئی ہوتی تو چھتیس گڑھ میں بابائے قوم کی توہین کا واقعہ بھی پیش نہیں آتا۔ بہرحال اگر مگر کا سوال خاص اہمیت نہیں رکھتا، کیوں کہ باپو کی توہین کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے اور اس معاملہ میں چھتیس گڑھ حکومت کی کارروائی کے بعد سماج کے ایک طبقہ کا جس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے، اس سے یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ ملک پر جان قربان کرنے کی سات دہائیوں بعد بھی مہاتما کے امتحان کا دور ابھی باقی ہے۔ گاندھی جینتی ہو یا ان کی برسی یا ملک کی آزادی کا ہی موقع ہو، سوشل میڈیا پر گوڈسے کی حمایت میں پیدا کی جانے والی لہر کے پیچھے کون ہوتا ہے، یہ سب کو معلوم ہے۔اس کے باوجود یہ سلسلہ بلاتعطل جاری رہتا ہے تو اس کا مطلب کیا سمجھا جائے؟ یہاں میں جان بوجھ کر سیاسی تبصروں کا ذکر نہیں کررہا ہوں کیوں کہ اس میں بھٹکنے کا خطرہ پوشیدہ ہے۔
آخر گاندھی جی کا جرم کیا ہے؟ کیوں کچھ راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ اس شخص کے پیچھے پڑے ہیں جو نہرو سے پٹیل تک، ونوبا سے جے پرکاش تک، منڈیلا سے مارٹن لوتھر تک اور ٹالسٹائے سے اوباما تک کے رہنما رہے۔ آخر کیوں پھانسی پر چڑھا دیے جانے کے باوجود ’گوڈسے‘ آج تک زندہ ہے؟ دراصل اس کی ایک بڑی وجہ باپو سے ہندوستانی معاشرہ کا لگاؤ اور ان کا اثر ہے۔ یہ اپنائیت ان عناصر کو کھٹکتی ہے جو گاندھی کو تقسیم کا ذمہ دار مانتے ہیں اور اس غلط فہمی کو مسلسل نظریاتی کھاد پانی دے کر زندہ رکھنے کے بیمار احساس میں مبتلا رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر گاندھی کے نظریات کے قتل کے مواقع تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ پس منظر ٹھیک ویسا ہی ہے جیسا گاندھی کے جسمانی قتل کے وقت تھا۔ آزاد ہندوستان میں باپو کی آسمان چھوتی مقبولیت کو جب نفرت انگیز خیالات سے شکست نہیں دی جاسکی، تو انہیں راستے سے ہٹانے کی سازشیں رچی گئیں۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ 30جنوری، 1948سے پہلے باپو کے قتل کی پانچ ناکام کوششیں ہوئیں جن میں سے زیادہ تر میں گوڈسے کو شامل کیا گیا۔ آج کے دور میں بھی گاندھی جی کے نظریاتی قتل کی سازش میں کچھ نشان زد چہرے شامل نظر آتے ہیں۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ غلام ہندوستان میں جس طرح انگریزوں نے جان بوجھ کر ایسے لوگوں کو سزا دینے کی ضرورت نہیں سمجھی، اسی طرح آزاد ہندوستان میں بھی ایسے عناصر کی سزا معافی پر بحث کے اردگرد سمٹ کر رہ جاتی ہے۔
دراصل گاندھی کی مکمل شخصیت کو دیکھیں تو وہ اپنی زندگی میں ہی ایک نظریہ کی شکل لے چکی تھی اور یہ نظریہ ہی ایک صدی بعد بھی گاندھی کو بامعنی بنائے ہوئے ہے۔ اس لیے بھی ان کے دامن پر داغ لگانے کی کوشش آسمان کی طرف سر اٹھاکر تھوکنے جیسی ثابت ہوتی ہے۔ زندگی کا کون سا ایک پہلو ہے جسے گاندھی درشن متاثر نہیں کرتاہے۔ سچائی کے ساتھ ان کا تجربہ زندگی ومذہب سے کم نہیں ہے۔ سچائی اور عدم تشدد ، پیار اور بھائی چارہ یہی تو وہ اقدار ہیں جو ہندوستانی معاشرہ کو عالمی شناخت اور وقار دونوں دیتی ہیں۔ نظریہ کی شکل میں زندگی کے ہر پہلو پر گاندھی کا نقش ہے اور اس میں بھی سب سے اوپر ہے ان کا اخلاقی پہلو۔ اس معاملہ میں خود گاندھی نے خود سے عدم اتفاق رکھنے والوں کے سامنے لاتعداد مثالیں رکھی ہیں۔ ملک کی آزادی کے لیے وقت وقت پر کی گئیں ان کی تحریکیں آخر عدم اتفاق کی علامت ہی تو تھیں اور ان کی اخلاقی طاقت بھی ایسی تھی کہ جو انگریز اپنے سامراج میں سورج غروب نہ ہونے کی بات فخریہ انداز میں کہا کرتے تھے، وہ ہی بار بار اس مہاتما کے سامنے اپنے ہی ہاتھوں اپنے تکبر کو خاک میں ملانے کے لیے مجبور ہوجاتے تھے۔
آج کے دور میں جو لوگ گاندھی پر انگلی اٹھاتے ہیں، ان کے لیے یہ ایک اور مناسب موقع ہے کہ وہ گاندھی کی زندگی کے حالات کا خود تجزیہ کریں۔ جس وقت ملک آزادی کی جانب قدم بڑھا رہا تھا تب گاندھی ایسے دوراہے پر کھڑے تھے جس میں ایک طرف سامراجی طاقت کی شکل میں انگریزوں کی ہندو اور مسلمانوں کو تقسیم کرکے حکومت کرنے کی پالیسی اپنے عروج پر تھی تو دوسری جانب فرقہ پرست لیڈروں کی ٹولی شکاری جانوروں کے جھنڈ کی طرح موقع دیکھ کر شکار لپکنے کی تاک میں بیٹھی تھی۔ ’ایکلا چلو رے‘ کی طرز پر وہ گاندھی ہی تھے جو اتحاد کی مشعل میں بھائی چارے کا تیل ڈال رہے تھے۔
مذہبی-سماجی کٹھ ملاّؤں سے ان کا عدم اتفاق تقسیم کی پیداوار نہیں تھا، وہ تو گاندھی میں پیدائشی تھا۔ تقسیم تو اس اظہار رائے کا محض مناسب موقع بنی۔ یہی عدم اتفاق آزادی ملنے اور باپو کو گنوانے کے بعد ہماری جمہوریت کا محور بنا۔ جو لوگ گاندھی پر سوال اٹھاتے ہیں، دراصل انہیں گاندھی کا شکرگزار ہونا چاہیے جنہوں نے اظہاررائے کے حق کو دبانے کچلنے کی تمام ہتھکنڈوں کے درمیان ملک اور معاشرہ کو عدم اتفاق کی آوازوں اور اس کی سنوائی کی اہمیت کا سبق پڑھایا۔
گاندھی جی کو محبت سے سابرمتی کا سنت کہا جاتا ہے۔ یہ میری ذاتی رائے ہوسکتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ملک کی آبادی کی اکثریت بھی یہ قبول کرے گی کہ اصلیت میں تو گاندھی سنت روایت کے آخری عظیم نمائندے ہیں۔ آج کے دور میں سنت بنی بیٹھی اور ان پر سوال اٹھانے والی خودساختہ جماعت تو دراصل اس مہاتما کی روشنی میں جھوٹ سے تجربہ کی ہوڑ میں مصروف ہے جو اپنا مقصد حاصل ثابت کرنے کے لیے بڑی چالاکی سے باپو کی فرقہ وارانہ اور معاشرتی ہم آہنگی کے بنیادی پیغامات کو کنارے کرکے ان کی زندگی کے چنندہ حصوں کو سامنے لارہی ہے۔ کل تک جو کام ایک خاص طرح کی سیاسی جماعت کررہی تھی، آج اس کے لیے نام نہاد سادھو سنتوں کو آگے کیا جارہا ہے۔
گاندھی کی عظمت دیکھئے کہ ایسی صورت حال کے لیے بھی اگر معاشرہ ان کے پاس رہنمائی کے لیے جاتا ہے تو گاندھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ گاندھی نے لکھا ہے، ’’خاموشی جب بزدلی بن جاتی ہے جب موقع مکمل سچ بولنے اور اس کے مطابق کام کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘ آزادی کے امرت دور پر ہم لاکھ باتیں کرلیں لیکن اس کا عزم تبھی تکمیل کو پہنچے گا، جب معاشرہ اس گاندھی منتر کو سمجھے گا اور ہمارا نظام ایسے ناپسندیدہ گروہوں کے چھل کپٹ کی سمت تبدیل کرے گا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS