صبیح احمد
اقوام متحدہ کے دوسرے سیکریٹری جنرل ڈیگ ہمارسک جولڈ جنہوں نے اس وقت کے پر آشوب اور ہولناک دور میں عالمی ادارہ کا یہ اہم ترین عہدہ سنبھالا تھا، نے ایک بار کہا تھا کہ ’اقوام متحدہ انسانوں کو جنت میں لے جانے کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کو جہنم سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘ ہمارسک جولڈ کے ذہن میں جس قسم کا جہنم تھا، عالمی جنگ اور ہٹلر کے اجتماعی قتل کے کیمپوں اور پوری دنیا پر پھیلے ہوئے ایٹم بم کے سائے کے درمیان اس کا تصور کرنا مشکل نہیں ہے۔ ان حالات میں جوہری اسلحہ پر قدغن لگانے میں اقوام متحدہ نے کتنا اہم کردار ادا کیا تھا، اس پر حالانکہ مورخین میں ایک رائے نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ 1945 میں اپنے قیام کے بعد سے آج تک اپنی اس طویل زندگی میں اس نے لاکھوں لوگوں کو ایک دوسری قسم کے جہنم سے بچانے میں، انتہائی غربت کی خلیج سے نکالنے میں، قابل علاج بیماریوں سے مرتے بچوں کو بچانے میں اور واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان نظریاتی دشمنیوں کے حساب برابر کرنے کے لیے میدان جنگ بنے افریقہ اور ایشیا سے بھاگتے ہوئے لاکھوں کروڑوں معصوم لوگوں کو فاقہ کشی اور خطروں سے بچانے میں کافی مدد کی۔ اقوام متحدہ کے زیر انتظام بچوں کی تنظیم ’یونیسیف‘ بشمول اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون، نے لاکھوں لوگوں کے لیے تعلیم اور بہتر زندگی کا راستہ فراہم کیا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نوآبادیات کے چنگل سے آزاد ہونے والے ممالک میں حکومت سازی اور حکمرانی کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔
اقوام متحدہ کی نمایاں کامیابی یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو لائف لائن فراہم کرتا رہا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام 80 ملین سے زیادہ لوگوں کو خوراک اور نقد امداد فراہم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ تقریباً 69 ملین بے گھر افراد کو امداد فراہم کرتا ہے جنہیں ظلم و ستم، تنازعات، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں دنیا کے 45 فیصد بچوں کو ویکسین فراہم کرتی ہیں، جس سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق 2 سے 3 ملین جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے قانون کے لیے پہلا جامع فریم ورک قائم کیا۔ تنظیم نے ایک آفاقی اعلامیہ کے ذریعہ انسانی حقوق کی تعریف وضع کی۔ اس کے ساتھ ہی ان دستاویزات نے مساوات، آزادانہ نقل و حرکت، تعلیم، مذہب اور پناہ کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر بہت ساری چیزوں کی وضاحت کی۔ اقوام متحدہ نے اپنے بیان کردہ حقوق کو فروغ دینے اور ان کے تحفظ کے لیے میکانزم بھی قائم کیا۔ انسانی حقوق کی کونسل جو 47 نمائندوں پر مشتمل ہے، ہر 4 سال بعد اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیتی ہے اور تمام ملکوں کو سفارشات پیش کرتی ہے۔ جب 1945 میں اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی تھی، 750 ملین لوگ نوآبادیاتی طاقت کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتے تھے۔ آج 2 ملین سے بھی کم لوگ نوآبادیاتی حکمرانی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فریم ورک کی ایک اہم خصوصیت میں ہر ملک کی خودمختاری اور خود ارادیت کا حق شامل ہے۔
ان تمام کارہائے نمایاں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے قیام کے تقریباً 80 سالوں میں اقوام متحدہ کو بنی نوع انسان کے مستقبل کی بڑی امید کے طور پر سراہا جاتا لیکن اسے آمریتوں کی شرمناک پناہ گاہ کے طور پر مسترد کیا جا رہا ہے۔ اس نے اپنی بے حس بیوروکریسی، بدعنوانی کی ادارہ جاتی پردہ پوشی اور اپنی اہم ترین شاخ ’سلامتی کونسل‘ کی غیر جمہوری سیاست سے لوگوں کو ناراض کر رکھا ہے۔ امن کے نام پر جنگ کی طرف داری کرنے کا الزام عام طور پر لگایا جاتا رہاہے۔ اس حوالے سے اکثر عراق، افغانستان، فلسطین، بوسنیا، سوڈان، یوکرین جیسے ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ 80 سال اور اربوں ڈالر سے زائد کے اخراجات کے باوجود عالمی برادری اقوام متحدہ کی کارکردگی پر منقسم ہے۔ مجموعی طور پر اقوام متحدہ کی بین الاقوامی سطح پر ایک مثبت امیج ہے لیکن اقوام متحدہ کی حمایت کے حوالے سے متعصبانہ تقسیم خاص طور پر امریکہ میں وسیع ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے بارے میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کا تصور یا نظریہ اہم ہے کیونکہ امریکہ اقوام متحدہ کو سب سے بڑا عطیہ دینے والا ملک ہے اور یہ اقوام متحدہ کے مجموعی بجٹ کا تقریباً 20 فیصد حصہ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ پر بار بار یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ مینڈیٹ کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اقوام متحدہ صرف اتنا ہی مؤثر ہے جتنا کہ رکن ممالک اجازت دیتے ہیں اور یہ ممبران قومی خودمختاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو عام طور پر سفارشات سمجھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کلیدی شاخ سلامتی کونسل اپنی قراردادوں کو پابندیوں یا فوجی طاقت کے ذریعہ نافذ کرنے کی اہل ہے، لیکن کونسل کے 5 مستقل ارکان میں سے کوئی بھی کسی بل کو ویٹو کر سکتا ہے، اس لیے عام طور پر سخت طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جاتی۔
سلامتی کونسل کو بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے کارروائی کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، لیکن ویٹو پاور کسی بھی کارروائی میں اکثر رکاوٹ بن جاتی ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل (پی-5) ممالک بالآخر اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کون سے تنازعات بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کارروائی کے لائق خطرات ہیں۔ اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کونسل کے قیام سے ہی ان ممالک نے اپنے ہی قومی مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ وینزویلا میں سیاسی اور انسانی بحران کے بعد پی-5 ممالک تذبذب کا شکار تھے۔ برطانیہ، امریکہ اور فرانس نے ایک قرارداد پیش کی جس میں وینزویلا کے انتخابات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا گیا۔ روس اور چین نے انتخابی عمل میں بیرونی مداخلت کی مذمت میں قرارداد پیش کی اور وینزویلا میں مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ دونوں قراردادیں ناکام ہوگئیں اور تعطل نے اہم امداد کی فراہمی میں تاخیر کی۔ پی-5 ممالک اس بات پر متفق نہیں ہو پاتے کہ زیادہ تر تنازعات سے کس طرح نمٹا جانا چاہیے جس کی وجہ سے یو این ایس سی بار بار عدم فعالیت کا شکار ہوجاتی ہے۔ اس کے مشنوں میں عام طور پر شمولیت اور نمائندگی پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کو مغرب پر مبنی تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے آغاز سے ہی یوروپی اور امریکی مفادات غالب رہے ہیں۔ اگرچہ اقوام متحدہ نے متعدد امن مشنوں کی کامیابی کے ساتھ قیادت کی ہے اور امن و سلامتی کو فروغ دینا اس کے مشن کا لازمی جز ہے، لیکن وہ بروقت مداخلت کرنے اور روانڈا اور بوسنیا میں نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہا۔ ادارہ جاتی کوتاہیوں نے روانڈا اور بوسنیا دونوں ملکوں میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی سنگین ناکامیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
اقوام متحدہ کو فی الوقت وبائی امراض اور دنیا بھر میں امداد کے محتاج افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی روشنی میں بڑی مالی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ دراصل صدر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے تنہائی پسندانہ انداز نے اس عالمی ادارہ کو خاص طور پر مالی شعبے میں کافی نقصان پہنچایا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے انسانی حقوق کی کونسل، اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) سے خود کو الگ کر لیا، عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی کی دھمکی دی اور پیرس موسمیاتی معاہدہ جیسے متعدد بین الاقوامی معاہدوں سے وابستگی ختم کر دی۔ اب اقوام متحدہ کے کئی امدادی پروگراموں کی فنڈنگ روک دی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کلیدی پروگراموں کی فنڈنگ اور امداد کے لیے امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ اگرچہ صدر بائیڈن نے اپنے دور اقتدار میں حالات کو سنبھالنے کی کافی حد تک کوشش کی لیکن ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے کے بعد گھڑی کی سوئی گھوم کر پھر وہیں پہنچ گئی ہے۔