عبدالماجد نظامی
تقریباً ایک دہائی سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کے عوام کو اس بات سے گمراہ کر رکھا تھا کہ اپوزیشن پارٹیاں خود غرض اور مصلحت پرستوں کا ایک جتھہ ہے جس کے پیش نظر ملک کی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور وہ اپنے ذاتی اغراض کو پسِ پشت ڈال کر ملک کی خاطر یکجا نہیں ہو سکتے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے دوسرا نشانہ نہرو اور گاندھی فیملی پر لگایا اور کانگریس پارٹی کے چہرہ کے طور پر نظر آنے والے راہل گاندھی پر شدید حملے کیے گئے تاکہ ان کی امیج کو دھول میں ملا دیا جائے اور ہندوستان کے لوگ انہیں سنجیدگی سے نہ لیں۔ ایسا اس لئے بھی کیا گیا تھا کیونکہ بی جے پی اور سنگھ کو اس بات کا خوب اندازہ تھا کہ اگر ان کے اقتدار اور عوام پر ان کی گرفت کو کہیں سے چیلنج مل سکتا ہے تو وہ کانگریس پارٹی ہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی وہ پارٹی ہے جس کے کیڈر اور اس کے حامی ملک کے ان حصوں تک میں بھی موجود ہیں جہاں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی رسائی اب تک نہیں ہو پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی لہر کے باوجود پورے ملک میں کانگریس پارٹی کے کم از کم20 فیصد ایسے ووٹ موجود ہیں جن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پیادے جن کی سیاسی سمجھ اتنی پختہ نہیں ہے وہ تو اس بات پر یقین کر لیں گے کہ اب مودی کی آندھی کے سامنے کوئی اپنا وجود باقی نہیں رکھ پائے گا اور اپنی سادگی میں وہ امت شاہ کے اس جملہ پر بھی شاید بھروسہ کرلیں کہ اگلے پچاس برسوں تک بھارتیہ جنتا پارٹی ہی حکومت میں برقرار رہے گی۔ لیکن زعفرانی پارٹی کے پالیسی ساز دماغوں کو اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ کانگریس پارٹی کو ہلکے میں نہیں لیا جا سکتا اور جب تک اس کی ساکھ کو بٹہ نہیں لگایا جاتا تب تک بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے راہیں ہموار نہیں ہو سکتی ہیں۔ اسی پلان کو ذہن میں رکھتے ہوئے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے گاندھی فیملی اور کانگریس کو اول دن سے ہی اپنے نشانہ پر رکھا اور ہر ممکن کوشش کی کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمس سے ان کے خلاف ایسی تحریک چلائی جائے کہ عام ذہن و دماغ تک اس کی گونج پہنچ جائے۔ ابتدا کے چند برسوں تک بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس میں بڑی کامیابی ملی کیونکہ اس حقیقت کو سمجھنے کے باوجود کہ ان کے خلاف زبردست ڈھنگ سے امیج کشی کا طوفان کھڑا کیا جا رہا ہے، کانگریس پارٹی اس کے مقابلہ کے لئے کوئی خاص اور موثر پلاننگ نہیں کر پائی۔ البتہ اس سلسلہ میں پہلا اور منظم سیاسی عمل تب شروع ہوا جب راہل گاندھی نے عوام کے ساتھ اپنا سیدھا تعلق بحال کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ’بھارت جوڑویاترا‘ کا آغاز کیا اور کنیا کماری سے لے کر کشمیر تک پیدل سفر پر نکل پڑے۔ یہ عمل کانگریس پارٹی کا ماسٹر اسٹروک ثابت ہوا۔ دراصل اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی کامیابی سے بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور نہ صرف اس پر تیکھے حملے شروع کر دیے بلکہ خود اس انسانی قافلہ کے سیلاب کو روکنے کے لئے ہر ممکن ترکیبیں بھی کیں لیکن ناکام ثابت ہوئی۔ راہل گاندھی کی جانب سے یہ پہلا ایسا کامیاب عمل تھا جس نے ان کو مہاتما گاندھی اور ان کے ڈانڈی مارچ کی وراثت سے جوڑ دیا اور نہرو و گاندھی نے اس ملک کے بچھڑے اور پچھڑے لوگوں کو متحد کرکے انگریزی سامراج کا مقابلہ کرنے کا جو ہنر اس پارٹی اور اس ملک کے لوگوں کو سکھایا تھا، اس تاریخ اور وراثت کو زندہ کرنے کاکام کیا۔ قومیت اور حب الوطنی کی وہ تمام علامتیں جن پر دھیرے دھیرے بی جے پی قابض ہو گئی تھی، اس یاترا سے ان کو واپس لینے کا مشن شروع ہوا اور ’بھارت‘ جیسے لفظ کا انتخاب بڑی سیاسی ہوشمندی کے ساتھ کیا گیا۔ اس ’بھارت جوڑو یاترا‘ کی کامیابی کو اس بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کرناٹک کے انتخاب میں کانگریس پارٹی ایک مضبوط قوت بن کر ابھری اور وزیر اعظم نریندر مودی کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اہم بات یہ ہے کہ جن علاقوں سے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا قافلہ گزرا تھا وہاں کانگریس پارٹی کو زیادہ نشستیں ملیں جیسا کہ اسی کالم میں اس پر تفصیلی تبصرہ پیش کیا جا چکا ہے۔ اب ’انڈیا‘ نامی پرچم کے تلے ملک کی 26اپوزیشن پارٹیاں اکٹھا ہوئی ہیں اوراپوزیشن لیڈران نے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے جو یہ امیج بنائی ہے کہ وہ کسی معاملہ میں متحد نہیں ہو سکتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی لئے انہوں نے ’انڈیا‘ نام سے اپنے اتحاد کا اعلان کیا اور اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ وہ اس ہندوستان کی حفاظت کریں گے۔ ان کا بنیادی مقصد یہاں کی تکثیریت کو تحفظ فراہم کرانا ہے جس کی روح دستوری اصولوں میں موجود ہے۔ اس اتحاد کے اعلان کے بعد سے ہی جس قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ارباب اقتدار کی جانب سے آنے لگے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنا پہلا مقصد حاصل کر چکی ہیں کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اب صرف مودی بینر پر بھروسہ نہیں کر رہی ہے بلکہ اپوزیشن کے اتحاد کے مقابلہ میں کئی گمنام پارٹیوں کا ایک جتھہ تیار کر لیا ہے تاکہ یہ بھرم قائم کیا جا سکے کہ اپوزیشن کے مقابلہ ان کے پاس زیادہ پارٹیاں موجود ہیں۔ لیکن حقیقت حال سے وہ تمام لوگ واقف ہیں جو سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ’بھارت‘ کے بعد ’انڈیا‘ کو بھی اتنی ہی کامیابی ملے گی؟ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے اتنا آسان ہوگا کہ وہ’انڈیا‘ پر اسی طرح کے تیکھے تبصرے جاری رکھ سکے جیسا کہ نریندر مودی نے کئے ہیں اور ان کو ’انڈین مجاہدین‘اور ’ایسٹ انڈیا کمپنی‘سے جوڑ دیا ہے۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر اس کا فائدہ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو ہی ملے گا۔ صورتحال جو بھی ہو لیکن اتنا تو واضح ہو چکا ہے کہ 2024 کا عام انتخاب وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے لئے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اپوزیشن اتحاد کو بھی مثالی الائنس کے ساتھ انتخابی عمل میں جانا ہوگا ورنہ انڈیا(INDIA) بنام بھارت کی لڑائی میں انڈیا کا حال شائننگ انڈیا جیسا نہ ہو جائے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]