عبدالماجد نظامی
جب سے نیٹ کے نتائج سامنے آئے ہیں تب سے تعلیم کے تعلق سے کئی طرح کے مسائل پر اس ملک میں بحث چھڑ گئی ہے اور وہ تمام پہلو ان مسائل کے ایسے ہیں جن پر بڑی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا سیدھا واسطہ ملک کے تعلیمی نظام کی کمی و کوتاہی یا اس کے درخشاں پہلوؤں سے ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے پالیسی سازوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ اس کا سیدھا تعلق ہمارے ملک کی نوجوان نسل اور اس کے مستقبل کے پالیسی سازوں سے ہے۔ ان کی ترقی اور عدم ترقی سے ملک کی قسمت کا فیصلہ ہوگا کہ آگے چل کر یہ کیسا ہندوستان ہوگا اور اس کی اخلاقی قدریں کن چیزوں سے طے ہوں گی۔ ایسی صورت میں ہمیں کچھ بنیادی مسئلوں کو حل کرنے میں پوری ایمان داری اور شفافیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کا نظام ایسا کیوں تیار نہیں کیا جاتا جس میں سماج کے ہر طبقہ کے بچوں کو یکساں طرز تعلیم سے استفادہ کا موقع مل سکے؟ اگر اس مسئلہ کو حل کر لیا جائے گا تو اس کے واضح امکانات نظر آتے ہیں کہ کسی ایک خاص میدان کو کریئر کے طور پر انتخاب کرنے کی جو ہوڑ لگی ہوئی ہے، اس میں کمی آئے گی اور ملک کے بچوں کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ ڈاکٹر اور انجینئر بننا ہی صرف چوائس کی فہرست میں اولیت کا درجہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کے علاوہ دیگر بے شمار ایسے مواقع موجود ہیں جہاں اچھے مستقبل کی ضمانت مل سکتی ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب ملک میں میڈیسن کی تعلیم کا عام رجحان بڑھ رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں، قصبوں اور شہروں کے بچے دن رات کی محنت سے مشکل ترین امتحانات میں کامیاب ہونے کا جذبہ اپنے دل میں سمائے ہوئے ہیں اور اس کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھ رہے ہیں تو آخر حکومت کی سطح پر اس سلسلہ میں یہ پالیسی کیوں نہیں بنائی جاتی ہے کہ مزید معیاری سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کو قائم کرنا سرکار کی اولین ترجیحات میں شامل ہو؟ آخرکار اسی ملک کے ان اولین قائدین نے جن کی آج کی سرکار مذمت کرتی ہے، اگر آزادی کے بعد ہر میدان میں معیاری اداروں کا جال ملک بھر میں نہ پھیلا دیا ہوتا تو جو مقام اور رتبہ علم کے الگ شعبوں میں بالخصوص میڈیکل تعلیم کے میدان میں ہندوستان نے حاصل کیا ہے، وہ قطعاً حاصل نہ کرپاتا۔ اب یہ ذمہ داری آج کی قیادت کے کاندھے پر آتی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مزید بہتر اور عالمی سطح کے ادارے قائم کرے اور جن میدانوں میں ہمیں ماہرین کی ضرورت ہے، ان پر خاص توجہ مرکوز کی جائے اور ایسے معیاری تعلیمی اور تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں جو دنیا بھر میں ملک کی نیک نامی کا ذریعہ بن سکیں۔ اسی تناظر میں اس بات پر بھی زور دیا جانا ضروری ہے کہ آخر کیا مسئلہ ہے کہ ہمارا سیاسی طبقہ کبھی بھی اس امر کو اہمیت کے ساتھ نہیں اٹھاتا کہ تعلیم پر ملک کی اجمالی آمدنی کا 6 فیصد خرچ کیا جائے؟ یہ مطالبہ بہت قدیم ہے لیکن اس پر عمل درآمد کی کوئی سنجیدہ کوشش اب تک دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔ اس کا منفی اثر یہ ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک کے وہ بچے جو ہرحال میں ترقی کی طرف گامزن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے خوشحالی و ترقی کے ساتھ ساتھ سماج میں اپنا ایک مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ ہر قیمت پر اپنے سامنے سب سے مشکل ہدف رکھ کر اس کو حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کرنے سے بھی جی نہیں چراتے۔ لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ پالیسی سازوں نے ایسا نظام تعلیم تیار کر رکھا ہے جس میں صرف ان کی محنتوں سے ہی سارا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔ مواقع کا درجہ اتنا تنگ رکھا گیا ہے کہ چند لوگوں کے داخلہ کے بعد دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اب اس کا فطری نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی جد و جہد سے اس دروازہ میں داخل نہیں ہوسکتا تو پھر اس بند دروازہ کو کھولنے کے لیے دوسرے ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ وہ ہتھکنڈے ایسے ہوتے ہیں جو نہ صرف بد اخلاقی کے زمرہ میں آتے ہیں بلکہ آئندہ نسل کے ممتاز دماغوں کو دکھ اور مایوسی کی گہری دلدل میں دھکیلنے کے ذمہ دار ہیں۔ آخر وہ بچے جو اپنی علمی استعداد کی بنیاد پر نہیں بلکہ پیسوں کے بل بوتے پر ناجائز ڈھنگ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں گے، کیا ان سے کبھی یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس ملک کے بیماروں کا اخلاقی بلندی اور پیشہ ورانہ دیانت داری کے ساتھ علاج کرپائیں گے؟ ہر گز نہیں کی جاسکتی۔ اس کے برعکس ایسے ڈاکٹروں کا جہاں بس چلے گا، وہاں وہ کمزور طبقوں کے اعضاء نکال کر امیروں کے ہاتھ بیچ کر مال و دولت کمانے کا دھندہ چلائیں گے جیسا کہ آئے دن ایسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ ملک کے اس بیمار نظام تعلیم اور طرز امتحان نے ایک بڑا سوال یہ پیدا کر دیا ہے کہ کیا تعلیم کا واحد مقصد ہر حال میں مال و دولت حاصل کرنا رہ گیا ہے؟ کیا ایسی تعلیم سے کبھی کوئی ملک عالمی سطح پر اپنے لیے وہ وقار حاصل کرسکتا ہے جس کی امید آج کی سیاسی قیادت شب و روز یہاں کے عوام کے اندر پیدا کرتی رہتی ہے؟ آخر اس گرتی اور بگڑتی صورت حال کو سدھارنے کی ذمہ داری کون نبھائے گا؟ میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم کی اہمیت نے پرائیویٹ سیکٹر کے ارباب سیم و زر کو یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ تعلیم کے نام پر نئی نئی دکانیں کھولیں اور صرف ان لوگوں تک تعلیم اور اس سے وابستہ ترقی کے امکانات کو محدود کر دیں جو ڈگریوں کو بھاری قیمت کے بدلے خریدنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کیونکہ سرکار اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتی نظر آتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک عجیب انارکی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے جس کا شکار آئے دن اس ملک کے بچے اور ان کے والدین ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا کیا جانا کسی بھی طرح سے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان مسائل کی سنگینی کا تقاضہ یہ ہے کہ جہاں جہاں کمیاں نظر آرہی ہیں، ان کو ماہرین کے مشورے سے استفادہ کرتے ہوئے دور کیا جانا چاہیے اور ایسا نظام نافذ کیا جانا چاہیے جس کی وجہ سے اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امتحانات کے پرچے لیک نہ ہوں اور جو حق دار اور لائق و فائق بچے ہیں ان کی محنت ضائع اور مستقبل داؤ پر نہ لگے۔ یہی اقدام ملک اور بچے دونوں کے لیے مفید ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]