عبدالماجد نظامی
سب سے پہلے ملک کی افواج کو سلام جنہوں نے دشمن ملک میں گھس کر مشترکہ مشن کے ساتھ آتنک واد کا منھ توڑ جواب دیا اور ہر ہندوستانی کو فخر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ پہلگام میں جن 26 بے قصور سیاحوں کا بے دردی کے ساتھ دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل کیا گیا تھا ان کے اہل خانہ، اعزہ و اقرباء کا یہ حق تھا کہ انہیں سرکار کے ذریعہ یقین دہانی کرائی جائے کہ اس بزدلانہ حملہ کے مجرموں اور ان کے پشت پناہوں کو اس کا حساب دینا ہوگا۔ ہندوستان کی سرکار نے پاکستان میں موجود مبینہ دہشت گردی کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ آئندہ بھی اگر کبھی ہندوستانی شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جائے گا تو اس کا فوری ردعمل دیکھنے کو ملے گا۔ ’آپریشن سندور‘ ہندوستانی فوج اور فضائیہ کی ایسی کارروائی تھی جس کی حمایت ملک کے تمام طبقوں نے کی ہے خواہ وہ الگ الگ سیاسی پارٹیاں ہوں یا عام شہری، ہر فرد اور جماعت نے نہایت ذمہ دارانہ ڈھنگ سے اپنا کام کیا ہے اور دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں سرکار کا ہاتھ مضبوط کیا ہے۔ ایسے مواقع متقاضی بھی ہوتے ہیں کہ ملک و معاشرہ میں کسی قسم کا اختلاف و انتشار نظر نہ آئے کیونکہ یہ ملک کی قومی سلامتی اور سالمیت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ’آپریشن سندور‘ ایک کامیاب کارروائی تھی جس میں صرف ان نو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں مبینہ طور پر ہندوستان مخالف عناصر اپنی تربیت حاصل کرتے تھے جیسا کہ ہندوستان کی فوج نے اپنے بیان میں بتایا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان تمام ٹھکانوں کا تعلق دہشت گردوں کی تربیت گاہ سے نہیں تھا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں آخری اور حتمی بات کہہ پانا مشکل ہے کیونکہ دعویٰ اور دعویٰ مخالف کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا رہے گا۔ اصل مسئلہ جس پر دونوں ملکوں کے قائدین کو توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس نزاع کی جڑ یعنی مسئلۂ کشمیر کا کوئی مناسب حل نکالیں۔ یہ تنازع اپنی عمر سے زیادہ مدت جی چکا ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے ہزاروں عام انسانوں کو اپنی زندگیاں قربان کرنی پڑی ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اس قدر حساس اور نازک بنا دیا گیا ہے کہ اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا شکار صرف جموں و کشمیر میں رہنے والے لوگ ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ پورا ملک اس کی چپیٹ میں آ جاتا ہے اور پھر صورت حال اس قدر بگڑ جاتی ہے کہ کسی معقول بات یا بحث کے لئے جگہ باقی نہیں رہتی ہے۔
جذبات کا ایسا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ حقیقت کی روشنی مدھم ہوتے ہوتے بالکل ماند پڑ جاتی ہے اور ایک بار دوبارہ سے اصل مسئلہ منظر سے غائب ہوجاتا ہے اور غیر ضروری فروعی مسائل پر بحثیں اس شدت سے جاری رہتی ہیں کہ کسی مناسب حل کی ساری توقعات ختم ہوجاتی ہیں۔ مسئلۂ کشمیر کو حل کرنے کا یہی مناسب وقت ہے۔ دونوں ملکوں کی قیادتوں کو ہوش کے ناخن لے کر سنجیدگی سے اس تنازع کو حل کرنے کی جانب مخلصانہ اور مضبوط اقدام کرنا چاہئے۔ اگر یہ قضیہ حل نہیں ہوپاتا ہے تو کم سے کم دونوں پڑوسی ملکوں کو اس بات کی کوشش تو ضرور ہی کرنی چاہئے کہ وہ اس جنت نشان ارضی کو اپنی ناکامیوں کے چھپانے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ جنگ کی صورت حال جب بھی پیدا ہوتی ہے، اس کے ساتھ ہی بے شمار تکلیف دہ مسائل بھی جنم لیتے ہیں جن کے ساتھ ہر خاص و عام کو جوجھنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اس میں فیصلہ کن جنگ کے امکانات تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ ہمیں عراق، افغانستان اور یوکرین پرکیے گئے امریکی و روسی جارحانہ حملوں سے سبق لینا چاہئے۔ باوجودیکہ امریکہ و روس کے پاس جنگی آلات و وسائل کے علاوہ مال و زر کی کمی نہیں لیکن اس کے باوجود وہ کمزور ملکوں اور جماعتوں کے خلاف بھی جنگیں جیت نہیں پائے یا کم از کم ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے جن کی خاطر ان جنگوں کا آغاز کیا گیا تھا۔ جب یہ طاقت ور اور امیر ترین ممالک فیصلہ کن جنگیں جیت نہیں پائے اور آخرکار انہیں بات چیت کا راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ جنگوں کے غیر منطقی سلسلہ کو روکا جا سکے تو پھر ہند و پاک جیسے نسبتاً غریب ممالک کو تو بدرجۂ اولی جنگ کا راستہ اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ان دونوں پڑوسی ملکوں کی اقتصادی حالت کا عالم یہ ہے کہ بے روزگاروں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ تعلیم، صحت اور بنیادی وسائل حیات کے مسائل سے دونوں ممالک دوچار ہیں اور ان کی طرف خاطر خواہ توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ہے۔ اس موقع پر یہ کہنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت بطور خاص بہت خراب ہے۔ پورا ملک قرض کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کے قرضوں سے بے حال ہوچکا ہے۔ اندرونی طور پر سخت سیاسی بحران کا شکار ہے اور سیاست پر مکمل طور پر فوج کا قبضہ ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی فوج نے غالباً پہلگام میں دہشت گردانہ کارروائی اسی مقصد سے کروائی ہو تاکہ اندرون ملک کی ابتر حالت سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ جن عناصر نے دہشت گردانہ کارروائیاں کی ہیں وہ کشمیریوں کے دوست نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی اس اخلاق سوز حرکت کی وجہ سے جہاں بہت سی ہنستی کھیلتی زندگیاں تباہ ہوگئیں وہیں ان کشمیریوں کا بھی سخت نقصان ہوا جو سیاحت کے موسم کے منتظر تھے کہ اس کی آمد سے ان کے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
پہلگام کے اندر دہشت گردانہ حملہ کا ایک دوسرا بڑا مقصد وہ تھا جس کی طرف ’آپریشن سندور‘ کے بعد بھارت کی سرکار نے اپنی پریس کانفرنس میں اشارہ کیا ہے۔ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا مقصد یہ تھا کہ جموں و کشمیر اور ملک کی دیگر ریاستوں میں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوجائیں لیکن عوام کی سمجھ داری سے دہشت گردوں کا یہ منصوبہ ناکام ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ بے شمار ہندوتو عناصر نے بھی پہلگام حملہ کے معاً بعد اسی لائن پر کام کرنا شروع کیا تھا جو دہشت گردوں کا ڈیزائن کیا ہوا تھا۔ اس موقع پر ہمیں ہندوستانی افواج کو بھی دل سے سلام کرنا چاہئے جنہوں نے بہت خوبصورتی سے ہندو مسلم اتحاد کا بڑا پیغام اندرون ملک اور بیرون ملک تمام شر پسند فرقہ پرست عناصر کو دیا ہے لیکن ساتھ ہی ہندوستان کی سرکار کو چاہئے کہ اندرون ملک ان تمام اوباشوں کے خلاف بھی کارروائی کرے جو موقع بموقع فرقہ بندی کی بنیاد پر دہشت کو انجام دیتے ہیں اور ملک کو اندر سے کمزور ہونے سے بچائے۔ اوباشوں کا یہ ٹولہ اس قدر جری ہوچکا ہے کہ شہیدوں کی بیوائیں بھی ان کی بدتمیزیوں سے محفوظ نہیں رہ گئی ہیں۔ یہ عناصر ملک کی سالمیت کے لئے اسی قدر شدید خطرہ ہیں جس قدر سرحد پار دہشت گردوں کی مجرمانہ حرکتیں ہوتی ہیں۔ اسی کے ساتھ دونوں ملکوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے بات چیت کا دروازہ کھولیں اور تعلقات کو معمول پر لائیں کیونکہ جنگ کی صورت میں بڑی طاقتوں کو ہمارے اندرونی معاملوں میں مداخلت کا بے جا حق مل جائے گا اور مسئلہ بھی حل نہیں ہوپائے گا کیونکہ غزہ پر جاری جارحیت کی وجہ سے اب مغربی ملکوں کے پاس کوئی اخلاقی جواز باقی نہیں رہ گیا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ ہم اپنے مسئلوں کو خود ہی ہوشمندی کے ساتھ حل کریں۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ مزید کسی فوجی کارروائی کی کوشش نہ کرے تاکہ معاملہ نقطۂ ابال تک نہ پہنچے۔ پاکستان کے لئے ہندوستان کے خلاف مزید جارحانہ رخ اختیار کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ ان دہشت گرد عناصر پر لگام لگائے جن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات بار بار کشیدہ ہوجاتے ہیں۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]