محمد حنیف خان
میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، اسرائیل نے الجزیرہ پر پابندی عائد کرکے اس ستون کو منہدم کردیا ہے۔ اس کی یہ پابندی یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اس کا وہ درد ہے جس سے وہ بلبلا رہا ہے۔چونکہ اسرائیل میڈیا کے توسط سے دنیا کو وہ دکھانے کا عادی رہا ہے جو وہ چاہتا ہے مگر اس بار ایسا نہیں ہوسکا،اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان 7اکتوبر 2023کو شروع ہوئی جنگ کے بعد اس محاذ پرالجزیرہ نے تن تنہا عالمی میڈیا کا مقابلہ کیا ہے۔الجزیرہ شروع سے ہی مغربی دنیا کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے کیونکہ یہ تنہا میڈیا ہاؤس ہے جس نے عالمی بیانیے کو بدلنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے ہمیشہ جانبدارانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے رپورٹنگ کی،اس جنگ کا تجزیہ بھی مغربی میڈیا نے یکطرفہ ہی کیا ہے۔امریکہ سے لے کر برطانیہ تک کے اخبارات اور ٹیلی وژن بیک زبان حماس کو اس جنگ کے لیے موردالزام ٹھہرا رہے ہیں، حالانکہ یہ سچائی سامنے آچکی ہے کہ حماس کے حملے سے قبل دو سے زائد فلسطینیوں کا قتل اسرائیلی فوج نے کیا تھا۔مگر کسی بھی ذرائع نے اس کی خبر نہیں دی۔اسرائیلی جیلوں میں مرد و خواتین کے ساتھ ہی بچوں کی ایک معتد بہ تعداد ہے جو آج بھی قید ہیں،جن کا ٹرائل تک نہیں ہو رہا ہے، اس سے متعلق مغربی میڈیا کبھی رپورٹنگ نہیں کرتا اور نہ مضامین کی اشاعت کرتا ہے جو ریاست کی دہشت گردی کے ساتھ ہی ریاستی اغوا ہے، مگر حماس نے جب حملہ کیا اور اسرائیلیوں کا اغوا کیا، ہر طرف سے چیخیں بلند ہونے لگیں اور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پورے فلسطین کو تخت و تاراج کردیا گیا۔33ہزار سے زائد شہریوں کا قتل ہوچکا ہے جس میں تقریباً 15ہزار صرف بچے ہیں۔مغربی میڈیا کو نہ تو شہریوں کی فکر ہے اورنہ ہی بچوں کی،وہ صرف یہودیوں کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہیں کیونکہ یہ یہودی مغربی دنیا کی معیشت کو کنٹرول کرتے ہیں۔مغربی ذرائع ابلاغ یہودی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں۔وہ اس پورے خطے میں اپنے ماتحت ذرائع ابلاغ سے حکومتیں بنانے اور گرانے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ وہ ایسا کرتے بھی ہیں،جن کا خوف پوری دنیا کے سر پر مسلط ہے۔
مغربی میڈیا چونکہ یہودیوں سے متعلق اور ان کے حق میں جانبدارانہ رپورٹنگ کرتا آیا ہے،گزشتہ پانچ ماہ میں نیویارک ٹائمس،واشنگٹن پوسٹ،وال اسٹریٹ جنرل اور دی گارجین جیسے عالمی سطح کے اخبارات میں اسرائیلیوں کے حق میں ہی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ برسبیل تذکرہ فلسطینیوں کے دکھ درد کا بھی ذکر ہوا ہے مگر اس کا سبب حماس کو ٹھہرایا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے کسی بھی وسیلہ اخبار/ٹیلی وژن پر حقائق کا انکشاف نہیں کیا گیا یہاں تک کہ فلسطین میں شہریوں،بچوں اور خواتین کی اسرائیلی حملوں میں ہونے والی اموات کے سلسلے میں بھی مغربی میڈیا نے یہی کہا کہ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق یہ تعداد ہے جس کی ہم تصدیق نہیں کرتے ہیں۔یعنی یہاں بھی انہوں نے شک اور شبہ کے لیے گنجائش برقرار رکھی تاکہ کسی پر یہ الزام عائد نہ کیا جاسکے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔اس پوری جنگ میں جب ہم مغربی ذرائع ابلاغ کا تجزیہ کرتے ہیں تو وہ انسانیت مخالف اور جانب دار نظر آتا ہے۔لیکن اس درمیان سماجی روابط کی ویب سائٹ اور الجزیرہ نے جو کردار اداکیا وہ نہ صرف لائق ستائش ہے بلکہ جانبدار مغربی میڈیا کی اس نے قلعی بھی کھول کر رکھ دی۔
الجزیرہ نے ’’الجزیرہ فلسطین‘‘ کے نام سے عربی میں جو چینل شروع کیا، اس نے غزہ میں ہو رہی جنگ اور اس میں اسرائیلی افواج کی نقل و حرکت کے ساتھ ہی فلسطینیوں کی ہونے والی اموات اور ان کی تباہی و بربادی کی پل پل کی خبریں نشر کی ہیں۔وہاٹس ایپ پر ’’الجزیرۃ فلسطین‘‘ کے نام سے چینل ہے جہاں ہر منٹ پر خبریں اپ ڈیٹ ہوتی ہیں جس سے دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ اسرائیل فلسطین میں کیا کر رہا ہے۔پوری دنیا میں اسرائیل، امریکہ اور اس کے حواریوں کے خلاف عوام میں جو غم وغصہ پایا جا رہا ہے، اس کا سبب یہی الجزیرہ ہے کیونکہ مغربی میڈیا یکطرفہ رپورٹنگ کرتا ہے جبکہ الجزیرہ دونوں کے بارے میں خبریں دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے۔
الجزیرہ کی نشریات کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن کو امیر قطر سے کہنا پڑا تھا کہ الجریرہ کو وہ حکم دیں کہ اپنی رپورٹنگ میں نرمی لائے۔ یعنی اس کی رپورٹنگ سے ایک طرف جہاں سچ دنیا کے سامنے آیا ہے، وہیں امریکہ،اسرائیل اور اس کے حواریوں کی ساکھ بھی دنیا میں گری ہے کیونکہ اس نے دکھایا ہے کہ یہ مغربی دنیا انسانیت کا جو چولا اوڑھے ہوئے ہے، اس کے اندر انسان نہیں ایک بھیڑیا اور قصائی چھپا ہوا ہے جو فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل کر رہا ہے،جو شہریوں کا قتل عام کرکے ان کی نسل کشی کر رہا ہے۔
الجزیرہ کی وجہ سے دنیا نے اسرائیل،امریکہ اور اس کے حواریوں کی اصل شکل دیکھی ہے اور وہ مسلسل دکھا بھی رہا ہے۔آپ مغربی میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر چلے جائیں، وہاں فلسطینیوں کے دکھ درد پر کوئی بات نہیں ملے گی،کوئی بھی اخبار،ویب سائٹ یا چینل یہ نہیں بتائے گا کہ اسرائیلی افواج کس طرح بے رحمی سے اسپتالوں میں مریضوں کا قتل کر رہی ہیں،کس طرح وہ ٹارگیٹ کرکے بچوں کو قتل کر رہی ہیں۔کتنے افراد ہیں جن کو اسرائیل نے اس جنگ کے دوران قید کیا ہے،وہاں اگر ملے گا تو یہ کہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل میں عوام خوف میں جی رہے ہیں،ان کی کاؤنسلنگ کی جارہی ہے۔جن افراد کے اہل خانہ حماس کی قید میں ہیں ان کا دکھ درد ملے گا مگر جو بچے یتیم ہو رہے ہیں،بھوک سے مر رہے ہیں،جو زخمی بغیر علاج کے تڑپ رہے ہیں،اسرائیلی حملوں میں جو مکانات مسمار ہوئے اور اس کے نیچے دب کر جن کی اموات ہوئی ان کے بارے میں ایک سطر نہیںملے گی،اس کے برخلاف الجزیرہ بتاتا ہے کہ اس وقت اسرائیل فلسطین میں کیا کر رہا ہے۔اس کا کالا چٹھا دنیا کے سامنے وہ رکھ رہا ہے،جس سے اسرائیل بلبلا اٹھا ہے۔اس نے یہ کہتے ہوئے الجزیرہ کے خلاف باضابطہ پارلیمنٹ میں یہ قانون پاس کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے، اس لیے ہم اس کی نشریات پر پابندی عائد کرتے ہیں۔لیکن دوسری طرف الجزیرہ ہے جس نے اسرائیل کی اس کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کے ساتھ کوریج جاری رکھے گا۔سی این این کی رپورٹ کے مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اوفر کاٹج کی قیادت والی اتحادی پارٹیوں کی حمایت سے وزیر اطلاعات و نشریات ’’شولوم کرائی‘‘کے ذریعہ پارلیمنٹ میں ایک قانون لایا گیاجسے منظور کرتے ہوئے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے نافذ کردیا ہے۔خود وزیر اعظم نے ایکس پر لکھتے ہوئے الجزیرہ کے بارے میں کہا کہ اس نے اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے،اسرائیلی فوج کے خلاف اسرائیلی عوام کو اکسایا ہے۔انہوں نے الجزیرہ کو ’’دہشت گرد چینل‘‘ بھی قرار دیا ہے۔جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی سیاست دانوں کے مفادات کو کس طرح الجزیرہ نے زک پہنچائی ہے۔
دوسری طرف امریکہ ہے جو ہمیشہ ’’بگلا بھگت‘‘بنا رہتا ہے،وہ اس طرح رد عمل کا اظہار کرتا ہے جیسے انسانیت کا سب سے بڑا علمبردار وہی ہے،جمہوریت ایک دودھ پیتا بچہ ہے اور امریکہ اس جمہوریت کو دودھ پلا کر پروان چڑھا رہا ہے۔وہائٹ ہاؤس نے اسرائیل کے ذریعہ پابندی کے قدم کی مذمت کرتے ہوئے اسے باعث تشویش قرار دیا۔پریس سکریٹری کیرین جین پیرے نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ دنیا بھر میں صحافیوں کے عمل اور ان کے اقدام کی حمایت کرتا ہے اور اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو غزہ میں جنگ کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔بس اتنا سا بیان دے کر اس نے اپنا پلہ جھاڑ لیا ہے۔ اس سے قبل اسرائیل فلسطین میں صحافیوں کو ٹارگیٹ کرچکا ہے اور صحافیوں کی ایک معتد بہ تعداد اسرائیلی حملوں میں شہید ہوچکی ہے مگر اس پر امریکہ نے کبھی زبان نہیں کھولی۔
دراصل امریکہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے،اس کے سامنے ہمیشہ اس کے اپنے مفادات رہتے ہیں،اس نے الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا پر پابندی کو چند جملوں میں اڑا دیا ہے مگر اس کے نتائج بہت خطرناک بر آمد ہوں گے۔ اسرائیل کے اس قدم سے دنیا کو اس بات کا مزید پختہ یقین ہوگیا ہے کہ مغربی میڈیا اس جنگ کے حوالے سے جانبدارانہ رخ اختیار کیے ہوئے ہے اور الجزیرہ ہی واحد ایسا چینل ہے جو اس جنگ کی درست رپورٹنگ کرکے وہاں کے حالات سے دنیا کو باخبر کر رہا ہے۔پوری دنیا میں اسی طرح کے میڈیا ہاؤس کی ضرورت ہے جو یہودیوں،سرمایہ کاروں اور طاقتوروں کے یرغمالی ہونے کے بجائے عوام کو درست خبر دکھانے کی جسارت رکھتے ہوں۔
[email protected]