پروفیسر عتیق احمدفاروقی
مغربی بنگال کے پنچایت انتخابات میں تشدد کی ہوڑ کے پیچھے صرف سیاست نہیں ہے بلکہ اقتصادی پالیسی بھی ہے۔ اس بارکے انتخابات میں تشدد کی پیشہ وری بھی دکھائی پڑی جو ایک سیاسی مقصد کیلئے کی گئی ہے اور یہ چیز بے حد تشویشناک ہے۔ سوال پیداہوتاہے کہ آخراتنی زیادہ تعداد میں لوگ پنچایت انتخابات کیوں لڑناچاہتے ہیں ؟ پنچایتی نظام سہ سطحی ہے۔ پہلے گرام پنچایت ،پھرپنچایت سمیتی اوراس کے بعد ضلع پریشد ۔ پنچایت کے انتخابات میں رائے دہندگان کو تین تین بار ووٹ ڈالنے پڑتے ہیں۔ یہ بات کسی سے چھپی نہیں ہے کہ پنچایت میں مرکزی اسکیموں کا بہت پیسہ آتاہے۔ ریاستی حکومت کے پروجیکٹ تو آتے ہی ہیں ۔پنچایتوں کے ذریعے ہی یہ پیسے خرچ ہوتے ہیں ۔ پنچایت پردھان کو بطور تنخواہ قریب چھ ہزار روپئے ماہانہ ملتے ہیں، لیکن وہ مرکزوریاستی حکومت کی تمام اسکیموں کی ایک اہم کڑی بھی ہوتی ہے۔ گاؤں کی آبادی اوررقبہ کے حساب سے پنچایتوں کے پاس لاکھوں ؍کروڑوں روپئے آتے ہیں۔ اس کے ایک بڑے حصہ کی بندر بانٹ ہوتی ہے۔
پنچایت میں خیانت ہوتی ہے ، یہ بات خود نیتاہی گاؤں گاؤں جاکر کہتے ہیں۔ یہ بھی محض کہاہی جاتاہے کہ جن لوگوں نے پنچایت کا پیسہ چوری کیاہے ان کو ٹکٹ نہیں دیاجائے گا اورپارٹی انہیں نکال دے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ پنچایتوں میں چوری کی شروعات ترنمول کانگریس کے دورمیں ہی ہوئی ہے، یہ سلسلہ برسوں سے چلاآرہاہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے دورمیں بھی پنچایتوں میں بدعنوانی تھی۔ وزیراعظم راجیو گاندھی نے کہابھی تھا کہ ہم مرکز سے ایک روپیہ بھیجتے ہیں تواس میں سے پندرہ پیسے ہی صحیح جگہ پر پہنچ پاتے ہیں۔ جن شعبوں میں ترقی یا اچھے روزگار نہیں ہیں وہاں سیاست وپنچایتیں بھی آمدنی کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں۔ آج زیادہ سے زیادہ لوگ چناؤ لڑتے ہیں اور ہر طریقہ سے وہ فتحیاب ہوناچاہتے ہیں۔
ان حالات میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ مغربی بنگال کے پنچایت انتخابات میں اتنا تشدد ہورہاہے۔ ایسا لگنے لگاہے کہ مغربی بنگال میں انتخابات اورتشدد ایک دوسرے کے ہم معنی لفظ بن گئے ہیں۔ بھلے ہی اس پنچایت انتخابات میں 2018کے مقابلے کم اموات ہوئی ہوں، لیکن اس بار کہیں زیادہ انتشار دیکھنے کو ملاہے۔ مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی، بی جے پی ، کانگریس اور ترنمول کانگریس سبھی جماعتوں کے لیڈران اورحامی ایک دوسرے سے متصادم دکھے ہیں۔ خصوصاً ترنمول کانگریس اوربی جے پی کے درمیان تشدد آمیز کھینچاتانی سہ شنبہ کو ووٹوں کی گنتی کے بیچ اوراس کے بعد بھی جاری ہے۔ ان انتخابات میں اب تک چالیس سے زیادہ لوگ فوت ہوچکے ہیں۔ انتخابات دراصل جمہوریت کا ایک تیوہار ہے، مگر مغربی بنگال میں اس کی خوشی منانے کے بجائے خون خرابہ ہورہاہے۔ پچھلی صدی کے 1960کی دہائی میں بھی حالات بہت خراب ہوگئے تھے۔ اس وقت اتحادی حکومت تھی اوروزیراعلیٰ تھے بابنگلہ کانگریس کے اجے مکھرجی ۔ تب نظم ونسق کا بحران اتنا گہراہوگیاتھا کہ خود وزیراعلیٰ کو اپنے ہی نائب وزیراعلیٰ کے خلاف (جو سی پی ایم کے جیوتی بسو تھے) دھرنے پر بیٹھنا پڑگیاتھا۔ وزیراعلیٰ کاکہناتھاکہ سی پی ایم کے کارکنان بنگلہ کانگریس کے لوگوں کوپیٹ رہے ہیں۔حالانکہ بعد میں بنگلہ کانگریس انڈین نیشنل کانگریس میں ضم ہوگئی اور مارکسسٹ کمیونسٹ پارٹی نے بائیں محاذ کی تشکیل کرکے حکومت بنائی، پھربھی چناوی تشدد میں کمی نہیں آئی۔
پہلے بہار کے مونیگر ضلع سے یہاں اسلحے آیاکرتے تھے، لیکن اب ایسی فیکٹریاں یہیں کھل گئی ہیں۔ چونکہ یہاں صنعت نہیں ہے ، روزگارنہیں ہے اس لئے نوجوان آسانی سے ایسے غیرقانونی کاموں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک صحافی نے جانچ کرکے بتایاتھاکہ کیسے یہاں فیکٹریوں میں بم ؍بندوقیں بن رہی ہیں۔ اُس صحافی نے ایک فیکٹری مالک سے بات کی تھی جس نے کہاتھاکہ وہ کسی ایک پارٹی کیلئے اسلحے نہیں بناتا جوبھی اسے پیسے دیتاہے وہ اس کو اسلحے دستیاب کرادیتاہے۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی حکومت بارہ سال پورے کرچکی ہے۔ ایسے میں چناوی تشدد روکنے کی ذمہ داری اسے ہی نبھانی چاہیے۔ مغربی بنگال میں یہ انتشار پرست عناصر، کہاجاتاہے کہ ہمیشہ حزب اقتدار کے ساتھ رہے ہیں۔ کانگریس کے دورمیں وہ کانگریس کے ساتھ تھے، بعد میںبائیں محاذ کا حصہ بن گئے اوراب ترنمول کانگریس کے ساتھ ہیں۔ اس کلچر پر روک لگائی جانی چاہیے۔ یہ بات تشویش ناک ہے کہ چناوی تشدد بنگالی شناخت کے ساتھ جڑگئی ہے۔ یہ وہی بنگال ہے جو کبھی نشاط الثانیۃ کا شہر کہاجاتاتھااورٹیگور،رام منوہر رائے اوربنکم چندر چٹرجی جیسی شخصیتوں کی زمین تھی۔ اب اس کی شناخت تشدد سے ہونے لگی ہے۔ ریاستی پولیس اپنی ذمہ داریوں سے کیوں چونک گئی؟ کیااسے نظم ونسق بنائے رکھنے کیلئے مزید کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی؟ کئی سابق سینئرپولیس افسران کاکہناہے کہ انتخابات کے وقت پر تشدد واقعات کے خدشات کے مدنظر سماج مخالف عناصر کو پہلے ہی حراست میں لے لینا چاہیے تھا، مگر اس بابت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیاگیا۔
بہرحال سیاسی تناظرمیں الجھے بنا یہ ضروری ہے کہ چناوی تشدد کے خلاف سیاسی جماعتوں میں اتفاق پیداہو۔ اس کیلئے ساری جماعتوںکی میٹنگ ہونی چاہیے اورسبھی ایک آواز میں تشدد بھڑکانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی حمایت کریں۔ یہ تو پنچایت چناؤ تھا۔ اگلے سال لوک سبھا کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ایسے میں تشدد کی سیاست ریاست کو کافی پیچھے ڈھکیل سکتی ہے۔ جب بہار ، اترپردیش جیسی ریاستوں میں چناوی تشدد کاخاتمہ ہوسکتاہے تو پھربنگال میں کیوں نہیں ؟ تشدد سے آزاد سیاست کے لیے مغربی بنگال میں عظیم ترین سے کوشش ہونی چاہیے۔ تشدد اورتنازعہ کا ہی نتیجہ ہے کہ حتمی نتیجہ آنے میں کافی وقت لگا۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ چناوی نتائج ترنمول کانگریس کے حق میں گئے ہیں۔ دراصل اس پارٹی کو توقع کے مطابق شاندار کامیابی ملی ہے۔ اس بار چناؤ میں بی جے پی اوربائیں بازوکی پارٹیوں کوتھوڑا فائدہ ہواہے۔ اگرایک طرف ترنمول کا ووٹ فیصد بڑھاہے تو دوسری طرف بی جے پی کے ووٹ فیصد میں بھی اضافہ ہواہے۔ ایسے میں پنچایت چناؤ میں ملی فتح کو ترنمول کانگریس 2024کے عام انتخابات میں استعمال کرناچاہے گی۔ ویسے لوک سبھا چناؤ اورپنچایت چناؤ میں کافی فرق ہے۔ لوک سبھا کا چناؤ نریندرمودی اورراہل گاندھی کا چناؤ ہوگا، تنہا ممتابنرجی کا چناؤ نہیں کہاجاسکتا۔ لوک سبھاچناؤ کسی ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔ بلکہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہوگا۔ چناوی نتائج کا ابھی سے اندازہ لگانا مشکل ہے۔ پرایسی تدابیر ہم ضرور اختیار کرسکتے ہیں کہ چناوی تشدد میں کمی آئے ۔
[email protected]
مغربی بنگال: پنچایتی انتخابات میں تشدد: پروفیسر عتیق احمد فاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS