مغربی ایشیا:تیسری عالمی جنگ کا میدان؟: شاہنواز احمد صدیقی

0

شاہنواز احمد صدیقی

مغربی ایشیا کی آگ دور تک پھیل رہی ہے اور غزہ اور مغربی کنارے فلسطینیوں کی حمایت میں ایران اور اس کے حامی گروپوںکے کودنے کے بعد اسرائیل کی پشت پناہی میں مغربی ممالک اور زیادہ جارح ہوگئے ہیں اور پورا بحراحمر آگ اور شعلوں کا سمندر بنتاجارہاہے۔ یمن کے حوثی بحراحمر اور خلیج عدن میں اسرائیل کو مدد، ہتھیار اور دیگر رسد پہنچانے والے جہازوں کی آمدرفت پر رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ حوثیوں کااستدلال ہے کہ جب بے بس بے سہارا اور محصور اہل غزہ کو رسد نہیں پہنچ رہی، پانی، کھانے کی سپلائی نہیں مل رہی، دوانہیںمل رہی تو اسرائیل کو ہتھیاروں اور دیگر آلات کی سپلائی کیسے مل سکتی ہے؟ اس وجہ سے بحراحمر میں امریکہ اور برطانیہ نے ایک ایسا اتحاد بنالیا ہے جو حوثیوں کے خلاف جوابی کارروائی کررہاہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا استدلال ہے کہ حوثیوں کی حرکتوں کی وجہ سے پیٹرولیم مصنوعات، غذائی اجناس اور دیگر اشیائے خوردنی کی سپلائی متاثرہوگی اور عالمی معیشت میں کسادبازاری کا دور آئے گا۔ دنیا کی معیشت پہلے ہی یوکرین اور اب غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے حالات خراب ترہورہی ہے۔ سمندروں کے علاوہ دیگروہ خطے خاص طور پر مغربی ایشیا کے وہ ممالک جو کہ خارجی مداخلت اور امریکہ اور برطانیہ اور ان کے حواریوں کی فوجی کارروائیوں کا شکار رہے ہیں، پھرمیدان کارزار بنے ہوئے ہیں۔
اس کا سب سے زیادہ اثر ایران پر پڑرہاہے۔ ایران کو برملا حماس اور فلسطینیوں کی پشت پر دیکھ کر مغربی ممالک کے پروردہ اسرائیل کی حمایت میں مزید متحد ہوگئے ہیں۔ عراق،شام، یمن میں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروپ سرگرم ہیں اور ان ممالک میں ان گروپوں کا بڑاعمل دخل ہے۔ اس سے ان ممالک میں امریکہ اور ان گروپوں کے درمیان براہ راست تصادم اور فوجی کارروائیاں اور جوابی کارروائیاں انجام دی جارہی ہیں۔ ایران سے ملی ہوئی عراق کی سرحد پر امریکہ کی حمایت سے کردوں کے غلبہ والا کردستان ایک خود مختار انتظامیہ خطہ بن چکا ہے، یہاں سے امریکی حمایت یافتہ مسلح اور تنظیم عسکری گروپ کارروائیاں انجام دیتے رہے ہیں اور بعض مقامات پر ایران کے اندر تک حملہ کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں ایران کے اقتداراعلیٰ کی خلاف ورزی ہیں۔ اسی طرح ایران کی پشت پناہی والے گروپ عراق کے مختلف علاقوں میں امریکی ٹھکانوں کرد غلبہ اور کرد عسکریت پسندوں پرحملہ کرتے رہے ہیں۔ اس مرتبہ ایران نے کرد علاقوں پر حملہ کردیا۔ ایران نے یہ حملہ عراق ہی نہیں، شام کے ان علاقوں اور ٹھکانوں پر کیے ہیں جہاں امریکی فوجی اور وہ گروپ ہیں جو آئی ایس آئی ایس کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ عراق کے اربیل شہر پرایران کے سب سے جانباز سمجھے جانے والے پاسداران انقلاب آئی آرجی سی نے تقریباً ایک درجن میزائل حملے کیے۔ ایران کے حکام کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس حملے میں اسرائیل کی خفیہ اوربدنام زمانہ تخریبی ایجنسی ’موساد‘ کے ہیڈکوارٹر کو برباد کردیا ہے۔ پاسداران انقلاب کے دعوے کی تردید کردستان کے وزیر اعظم مسرور برزانی نے کی ہے اور ایرانی جارحیت کو کردوں کے خلاف کارروائی بتایاہے۔ مگر ایران کے وزیرخارجہ عامر عبدالنہیان اپنے موقف پر مصر ہیں کہ پاسداران انقلاب نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ ذرائع کے مطابق برزانی کے ایک قریبی تاجر پیش رو برزانی ایرانی کارروائی میں مارے گئے ہیں، وہ عراق میں امریکی حملہ کے بعد2003 میں سرگرم ہوگئے تھے۔ انھوں نے دوکمپنیاں فالکون گروپ اور ایمپائرورلڈ بنائی تھیں، پیش رو برزانی کردستان کی قیادت کے بہت معتمد تھے۔ ایک زمانے میں مذکورہ دونوں کمپنیوں کے چیئرمین مسعود برزانی تھے۔ مسعود برزانی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈرتھے۔ اربیل میں ایران کی فوجی کارروائی پر مغربی طاقتیں تلملا کررہ گئیں۔ ایران نے بالکل واضح کردیا ہے کہ وہ اریبل کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ اور اس کے قرب وجوار میں امریکہ اوراس کے حلیفوں کی فوجی ٹھکانوں پر فوجی کارروائی کرنے کے لیے متحمل ہے۔ غزہ جنگ کے بعد سے امریکہ اسرائیل اوران کے حلیفوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ 25 دسمبر کوایران کے فوجی کمانڈر کی اسرائیل کی فوجی کارروائی میں موت کے بعد شام میں بھی ایران نے دہشت گرد گروپ آئی ایس آئی ایس کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا۔ یہ حملہ ادلب میں کیاگیا، جوشام کی مغرب کے علاقوں میں بشارالاسد کی مخالفتوں اور باغیوں کے کنٹرول والا علاقہ ہے۔ شام میں نام نہاد’عرب بہاریہ‘ کے بعد سے زبردست خانہ جنگی چھڑی ہوئی ہے۔ ایسا نہیں کہ صرف ایران ہی فوجی کارروائیوںمیں مصروف ہے۔ ایران کی سرزمین بھی دہشت پسندانہ سرگرمیوں کا نشانہ رہی ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں 3جنوری کوصوبہ کرمان میں پاسداران انقلاب کے سربراہ قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کے موقع پر پرہجوم مذہبی اجتماع میں کئی دھماکے ہوئے تھے جس میں تقریباً100 معصوم افراد کی موت ہوئی تھی۔ قاسم سلیمانی کو امریکہ نے ایک ڈرون حملہ میں ہلاک کردیاتھا۔
ایران کا کہناہے کہ شام میں اس نے اپنے ’خیبرشکن‘ میزائل سے ادلب کونشانہ بنایاتھا۔ ایران کا یہ میزائل نوسومیل تک کے نشانہ کوختم کرسکتاہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شام میں داغے جانے والا میزائل آزربائیجان سے چھوڑاگیاتھا۔ ان کارروائیوں سے ایران بتادینا چاہتاہے کہ وہ کس حد تک اور کتنی گہرائی تک دشمنوں کونشانہ بنا سکتا ہے۔
اس وقت ایران ایک اورپڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ برسرپیکار نظرآرہاہے۔ ایران نے پاکستان سے ملی ہوئی سرحد کو عبور کرکے حبش العدل کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ایران کادعویٰ ہے کہ یہ گروپ پاکستان کی سرزمین سے ایران کے اندر دہشت گردانہ وارداتیں انجام دینے میں سرگرم ہے۔ پاکستان نے ایران کی اس کارروائی کے جواب میں ایران کے اندر گھس کر فوجی کارروائی کی ہے۔ پاکستان کا کہناہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسند ایران کی سرزمین سے دہشت گردانہ وارداتوں میں ملوث ہیں اور یہ کارروائی بلوچ علیحدگی پسندوں’بلوچ لبریشن فرنٹ‘ کے خلاف کی گئی تھی۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS