پروفیسر اسلم جمشید پوری
اردو ایک زبان ہی نہیں ایک تہذیب ہے۔تقریباً اپنے آٹھ سو سالہ سفر کے دوران اردوزبان نے ایک معیار قائم کیا ہے۔یوں بھی دنیا کی کوئی زبان نفرت نہیں،محبت عام کرتی ہے اور یہ معاملہ اردو کا ہو تو آنکھ موند کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ زبان سماج میں محبت کو عام کرتی ہے۔اس کی مٹھاس کا کیا کہنا؟ یہ دنیا کی شیریںزبانوں میں سے ایک ہے۔آج بھی اس زبان کے جلوے دیکھنے ہوں تو لکھنؤ میں دیکھیں۔وہاں کے رکشے والے،خوانچے والے، ٹھیلے والے، بازار کے لوگ، شرفاء اور باقیاتِ نوابین کو دیکھیں۔ کیا پتہ تھا،اس کی مخالفت کی آندھی بھی اسی شہر لکھنؤ سے اُٹھے گی۔افسوس صد افسوس۔لکھنؤ کو کیا ہو گیا؟ جس شہر کا ذرہ ذرہ اردو کی مٹھاس لیے ہوئے ہے،وہیں سے اس زبان کے خلاف بگل بجے گا۔ اس میں لکھنؤ کا قصور نہیں ہے۔اس ریاست کے مکھیا، جو اتفاق سے یہاں کے نہیں ہیں۔وہ اس شہر کے ہیں جہاں اب اردو کے نقوش مٹ سے گئے ہیں۔ورنہ یہ شہر تو مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، محمود الٰہی،احمر لاری، محمدعبدالحق، افغان اللہ،ساقی فاروقی،افضال حسین،جمال حسین،شبنم گورکھپوری، عبیداللہ چودھری، وضاحت حسین رضوی جیسے اردو نوازوں کا ہے۔مگر اب شہروں کی تہذیب بدل رہی ہے۔زبانیں دم توڑ رہی ہیں۔
اترپردیش جہاں اردو کی پیدائش مانی جاتی ہے۔برج کا علاقہ،متھرا اور آس پاس،یہ بولی، بولی جاتی ہے،جسے محمد حسین آزاد نے اردو کا پیدائشی علاقہ بتایا۔جدید ماہرین ِزبان کا ماننا ہے کہ اردو کھڑی بولی سے نکلی ہے۔کھڑی بولی کا علاقہ دہلی اور آس پاس کا علاقہ،خاص کر میرٹھ تک کا علاقہ شامل ہے۔پھر اردو کے دو معروف قدیمی اسکول،ایک دہلی اور دوسرا لکھنؤ ہے۔اسی لکھنؤ کی سر زمین سے اردو کے خلاف آواز ابھری ہے۔وہی لکھنؤ جہاں کبھی ترقی پسند مصنّفین کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی اور ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔وہی لکھنؤ جہاں امرائو جان ادا کی تخلیق ہوئی۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اپنے قلم کا جادو بکھیرا۔وہی لکھنؤ جہاں میر انیس اور مرزا دبیر نے اپنے قلم توڑ دیے۔میر حسن اور پنڈت گلزارنسیم نے مثنوی کی زلفیں سنواریں۔وہی اترپردیش جس کی آب و ہوا نے پریم چند جیسے فنکار پیدا کیے،جس نے فراق گورکھپوری جیسے شعرا کو بامِ عروج تک پہنچایا۔
آج اسی اترپردیش کے دارالسلطنت سے صوبے کے مکھیا کی آواز بلند ہوئی ہے اور انہوں نے اردو کو مولوی اور کٹھ ملا پن سے جوڑا ہے۔ کوئی بھی زبان سماج میں نفرت نہیں پھیلاتی۔اردو تو محبت کی زبان ہے۔یہ تو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بودھ،قبائلی، دلتوں کے درمیان محبت اور انسیت پھیلاتی ہے۔اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔یہ ہندوئوں، سکھوں، عیسائیوں کی بھی زبان ہے۔یہ کرشن چندر، رام لعل، بشیشر پردیپ،موہن چراغی، آنند موہن زتشی گلزار، کملیشور، پردیپ، دھرمیندر، گاندھی جی،جواہر لعل نہرو، برج موہن دتاتریا کیفی،آنند نرائن ملا، گلزار، رالف رسل، گوپی چند نارنگ، راجندر سنگھ بیدی، امریتا پریتم،ٹھاکر پونچھی،ریوتی سرن شرما، ہر بنس سنگھ دوست، منشی نول کشور، گوپال متل،جوگیندر پال، گر بچن سنگھ،جو گا سنگھ انور،شیدا چینی،منموہن سنگھ،کنورمہندر سنگھ سحر کس کس کا نام لوں؟ وجیندر سنگھ پرواز، ابھے کمار ابھے، کرشن کمار بیدل، راجیو پرکاش ساحر،پریم گوپال متل،بلراج بخشی،اویناش امن، چندر بھان خیال، استوتی اگروال، انوراگ غیر، دیپک بدکی،رینو بہل،نینا جوگن اندو شبنم،جنگ بہادر گوئل،سندیپ بد کی،متھن کمار،سنجے سنگھ،اجے مالوی،جگ موہن، گلاب سنگھ وغیرہ آج بھی اردو میں لکھتے پڑھتے اور بولتے ہیں۔ہندی میں آج تقریباً پچاس فیصد الفاظ اردو کے ہیں۔پھر کیا اتر پردیش کے مکھیا ہندی والوں کو کٹھ ملا کہہ سکتے ہیں؟ انہیںاردو والے ہی سب سے کمزور لگتے ہیں۔ اردو والوں کو گالی بھی دو تو کوئی اس کی مخالفت میں آگے نہیں آئے گا۔ان کی اسی نیت کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اترپردیش اردو اکادمی میں ستمبر2023 کے بعد سے اب تک کوئی کمیٹی ہے نہ چیئرمین۔پورے صوبے میںاردو اساتذہ کی کتنی ہی نشستیں خالی ہیں،آج تک وہ بھری نہیں جارہی ہیں۔ان کو پتہ ہے اردو والوں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہے،وہ کبھی بھی احتجاج نہیں کریں گے،وہ تو مشاعروں اور دوسرے پروگراموں میں مگن ہیں۔
کیا یوگی بھگت سنگھ کو کٹھ ملّا کہہ سکتے ہیں؟ان کے خطوط اردو میں ملتے ہیں۔کیا راجندر پرساد کو بھی کٹھ ملّا کہیں گے ؟ جو ملک کے پہلے صدر جمہوریہ تھے۔جنہیں اردو میں کمال حاصل تھا۔گاندھی جی کو کیا کہیں گے؟ کٹھ ملّا یا مولوی؟ جن کو اردو میں لکھنا پڑھنا سب آتا تھا۔جن کے بہت سارے خطوط اردو میں ملتے ہیں۔موتی لعل نہرو اور جواہر لعل نہرو کو کیا کہیں گے؟ جن کو اردو زبان آتی تھی۔اپنے گاڈ فادر ساور کر کو کیا کٹھ ملّا یا مولوی کہہ سکتے ہیں؟ پریم چند کو کیا کہیں گے ؟ جن کی تعلیم مدرسے میں ہوئی۔ہمت ہے تو ان کو کٹھ ملا کہیں۔آنندموہن زتشی گلزاردہلوی کا کیا کریں گے؟ جو داغ اسکول کا ہونے پر فخر کرتے تھے اور ایسی اردو بولتے تھے کہ مسلمان بھی پانی مانگیں۔ان کا لباس،بود باس،رہن سہن،سب کچھ اردو تہذیب کا عکاس تھا۔کیا وہ بھی کٹھ ملّا تھے ؟نول کشور اور آنند نرائن ملّا کو کیا کہیں گے؟
اردو نے تو اس ملک کی ہمیشہ شان بڑھائی ہے۔ اس کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔کوئی بھی زبان کسی خاص فرقے یا مذہب کی نہیں ہوتی۔ زبانیں تو خدا کا عطیہ ہوتی ہیں، دھوپ، مٹی، ہوا، آگ، پانی،جنگل،پہاڑ وغیرہ کی طرح زبانیں بھی ہوتی ہیں۔ زبانیں تہذیبوں کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں۔اردو تو ایک تہذیب کا نام ہے۔اردو نے ’’ انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا۔سرفرو شی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ غازیوں میں بو رہے گی جب تلک ایمان کی۔سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔کیا کیا گنوایا جائے۔ جنگ آزادی میں اردو کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اردو کے تعلق سے اترپر دیش کے مکھیا کا بیان،سرا سر سیاست پر مبنی ہے۔ایسے بیان ملک کو جوڑنے نہیں توڑنے کا کام کرتے ہیں۔مگر ہمیں اسے بڑ بولے کی بڑ ہی سمجھنی چاہیے اور جس طرح اردو نے ملک کو ایک دھاگے میں پرونے کاکام کیا ہے،ہمیں بھی اتحاد اور یکجہتی قائم رکھتے ہوئے اس کی مذمت کرنی چاہیے۔
[email protected]