ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ملک کے کل مسلمانوں میں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً 90فیصد ہے۔ پسماندہ کا مطلب ہے-پچھڑے ہوئے! ان پسماندہ مسلمانوں میں وہ سب شامل ہیں، جو کبھی ہندو تھے لیکن ان میں بھی پسماندہ، اچھوت، درج فہرست اور نچلی سمجھی جانے والی ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام ذات پات اور اونچ نیچ کی تفریق کو نہیں مانتا ہے لیکن ہمارے مسلمانوں میں ہی نہیں، پاکستان اور افغانستان کے مسلمانوں میں بھی ذات پرستی جوں کی توں قائم ہے، جیسا کہ وہ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان کے جاٹ، گوجر، اہیر، کائستھ، کھتری، پٹھان اور یہاں تک کہ اپنے آپ کو برہمن کہنے والے مسلمانوں سے بھی میرا ملنا ہوا ہے۔ افغانستان میں پٹھان، تاجک، ازبیک، کرگز، کھتری اور موئے سرخ مسلمانوں سے بھی میری کئی بار ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ان مسلم ممالک میں ہندو ذات پرستی موجود ہے لیکن وہ وہاں دبی ہوئی،پوشیدہ رہتی ہے۔ ہندوستان میں تو ذات پرستی اس حد تک موجود ہے کہ ہندوستان کے ’اشرف‘ اور ’اجلاف‘ مسلمان ’ارذال‘ مسلمانوں سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی فاصلہ برقرار رکھتے ہیں۔پہلے طبقہ میں آنے والے لوگ اپنے آپ کو ترکوں، مغلوں اور پٹھانوں کی اولاد سمجھتے ہیں اور اجلاف لوگ وہ ہیں جو برہمن اور راج پوتوں سے مسلمان بن گئے ہیں۔ ہندوستان کے مالدار، اعلیٰ مقام پر فائز اور تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ارذال مسلمانوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ان میں زیادہ تر کھیتی، مزدوری، صاف صفائی اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں۔ انہی مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے تین چار پسماندہ لیڈروں نے ادھر کچھ پہل کی ہے۔ ان میں سے ایک لیڈر علی انور انصاری نے ایک بڑا خوبصورت نعرہ دیا ہے، جو میرے خیالات کے عین مطابق ہے۔ وہ کہتے ہیں: دلت-پچھڑا ایک سمان۔ ہندو ہوں یا مسلمان!! میں تو اس میں ہندوستا ن کے تمام لوگوں کو جوڑتا ہوں، وہ چاہے کسی بھی مذہب یا ذات کے ہوں۔ ذات اور مذہب کسی کا نہ دیکھا جائے، صرف اس کی حالت زار کیسی ہے، یہ جانا جائے۔ ہر بدحال کی فلاح کرنا حکومت ہند کا مذہب ہونا چاہیے۔ اسی لیے میں ذات پات اور مذہب پر مبنی ریزرویشن کو غیرمناسب سمجھتا ہوں۔ ریزرویشن پیدائش سے نہیں، بلکہ ضرورت سے ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی آواز اٹھائی ہے۔ میرے ہی مشورہ پر راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے آں جہانی سربراہ شری کے ایس سدرشن نے راشٹریہ مسلم منچ کا قیام کیا تھا۔ اگر ہم ذات اور مذہب کو سماجی اور معاشی انصاف کی بنیاد بنائیں گے تو ملک میں ہم ذات پرستی اور فرقہ پرستی کا زہر پھیلا دیں گے۔ ایسا کرکے ہم اگلی صدی میں ہندوستان کے کئی ٹکڑے کرنے کی بنیاد تیار کردیں گے۔ ہمیں ایسا ہندوستان بنانا ہے، جس کے ’مہاسنگھ‘ میں ہندوستان کے پڑوسی ہندو، مسلم اور بودھ ملک میں شامل ہونے کے خواہش مند ہوں۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]