علی گڑھ :علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوئے معاملے کے بعد بحث و مباحثے کا سلسلہ جاری ہے۔ اے ایم یو کے وائس چانسلر طارق منصور نے طلباءپر ہوئی پولیس کی زیادتیوں کے حوالے سے انکوائری بیٹھا دی ہے۔ اب لوگوں کو حقائق سامنے آنے کا انتظار ہے۔ لوگوں نے وائس چانسلر کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔پروفیسر رضاءاللہ خان نے کہاکہ اے ایم یو کے وی سی طارق منصور کے زمانے میں مستقل تنازعہ چلتا رہا ،اور سی اے اے اور این آرسی پر بھی ہورہا تھا، لیکن جامعہ کی حمایت کے بعد تشدد کا واقعہ پیش آیا، جس میں مقامی لوگ بھی شامل ہوئے۔جس میں اے ایم یو کا نام بدنام ہوا ہے۔ اے ایم یو میں پولیس کے داخلے کی اجازت دینا ایک غلط فیصلہ تھا۔ ہم ان کے اس فیصلے کو صحیح قرار نہیں دے سکتے۔ اب انہوں نے انکوائری بیٹھائی ہے، اس کمیٹی میں یہی دیکھا جائے گا کہ پولیس نے بچوں پر کس حد تک زیادتی کی ہے۔تین ماہ میں انکوائری مکمل کیے جانے کی بات کہی گئی ہے۔جس کے بعد حقائق سامنے آجائیں گے۔پروفیسر ہمایوں مراد نے کہاکہ وائس چانسلر کے ذریعہ جانچ کا فیصلہ بہت مناسب ہے ،اس سے جو لوگوں میںجو لاعلمی ہے اس سے لوگ مطمئن ہوجائیں گے۔ وائس چانسلر نے صلاح مشورے کے بعد یہ قدم اٹھایا ہے۔ تھوڑی تاخیر سے ہی سہی لیکن بہتر فیصلہ ہے۔
ڈاکٹر محمد شاہد نے کہاکہ پولیس نے طلبا پر جو زیادتیاں کی ہیں ،وہ واقعی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس کی انکوائری کی وائس چانسلر نے جو ہدایت دی ہے ، وہ ایک صحیح فیصلہ ہے ، کیوں کہ یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ کم سے کم ایک ہاسٹل اور گیسٹ ہاو¿س میں پولیس نے گھس کر طلبا کے ساتھ زیادتیاں کی ہیں۔ اب تحقیقات سے حقائق سامنے آئیں۔جامعہ اردو کے او ایس ڈی فرحت علی خان نے کہاکہ اے ایم یو میں جو ہوا ٹھک نہیں تھا۔ لیکن اب وائس چانسلر کے ذریعہ تفتیش کرائے جانے کا فیصلہ کافی اہم ہے، اور اس کی اشد ضرورت تھی۔ اس فیصلے سے حقائق منظر عام پر آئیں گے۔
اے ایم یو معاملے پر جانچ کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS