روس یوکرین جنگ دن اور ہفتوں کی دہلیزپار کرکے ایک ماہ سے زیادہ کا سفر طے کرچکی ہے۔ آئندہ کچھ دنوں میں انسانیت کو چیلنج دے رہا یہ ’عمل‘ 50دن پرانا ہوجائے گا، لیکن اسے روکنے کی کوئی نئی ترکیب اب تک نظر نہیں آرہی ہے۔ روس پر 5,000مختلف طریقہ کی معاشی پابندیاں اور جنگی مجرم کی تہمت لگانے کے بعد اب اسے دنیا کی سب سے بڑی حقوق انسانی کی تنظیم سے بھی معطل کردیا گیا ہے، لیکن روس نے اپنے قدم روکنے کے بجائے اس فیصلہ کو ہی غیرآئینی بتاکر آگے بڑھتے رہنے کے صاف اشارے دے دیے ہیں۔ روس کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حقوق انسانی کونسل سے باہر نکالنے کے لیے امریکہ کی پیش کی گئی قرارداد پر رکن ممالک میں 93ووٹ قرارداد کے حق میں پڑے اور 24قرارداد کے خلاف۔ تقریباً پورے جنوب ایشیائی ممالک سمیت کل 58ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ووٹنگ سے دور رہنے والے گروپ میں ہندوستان بھی شامل ہے۔
ووٹنگ سے دور رہنے کے باوجود ہندوستان نے بوچا میں بے قصور شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کے سانحہ کو ’بیحد پریشان‘ کرنے والا بتایا ہے۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندہ ٹی ایس تریمورتی نے دنیا کے سامنے ہندوستان کا سرکاری پہلو رکھتے ہوئے اس قتل عام کی واضح طور پر مذمت کی اور ایک آزاد جانچ کا مطالبہ کیا۔ حالاں کہ غور کرنے والی بات یہ رہی کہ واقعہ کی مذمت کے اس اقدام میں روس کا ذکر ایک بار بھی نہیں آیا۔ بوچا سے متعلق چین بھی کم و بیش اسی لائن پر آگے بڑھا ہے۔
بیشک 24فروری کو جنگ کی شروعات کے بعد ہندوستان کی جانب سے پہلی بار کی گئی مذمت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہندوستان روس کے تعلق سے اپنے رُخ میں کوئی تبدیلی کرنے جارہا ہے۔ بودھ کی سرزمین تو ہمیشہ سے ہی جنگ کے خلاف رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے یہ بھی منظور نہیں ہے کہ جانچ سے پہلے ہی روس کو قتل عام کا قصوروار ٹھہرادیا جائے۔ بیشک کسی غیرجانبدارانہ جانچ میں روس قصوروار پایا جاتا ہے تو اس کی مذمت کرنے میں ہندوستان پیچھے نہیں رہنے والا ہے۔ ہماری تاریخ ایسی ہی رہی ہے کہ مستقبل میں بھی امریکہ یا یوروپی یونین کا دباؤ ہماری سوچ کو نہیں بدل سکتا۔ پارلیمنٹ میں وزیرخارجہ ایس جے شنکر کے بیان نے اسی سوچ پر مہر لگائی ہے کہ ہمارے قومی اعتماد اور اقدار ہمارے قومی مفاد کے مطابق ہوتے ہیں، نہ کہ بین الاقوامی دباؤ سے۔
جنگ کے تعلق سے اقوام متحدہ میں روس کے خلاف ہوئی تمام ووٹنگ ہی نہیں، بلکہ روس کے کفایتی تیل سے لے کر ہتھیاروں کی خریداری تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے صرف ہندوستان پر الرٹ نگاہیں رکھی ہوئی ہیں، بلکہ روس کو الگ تھلگ کرنے کے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان پر زبردست دباؤ بھی بنا رہے ہیں۔ لیکن تمام دباؤ کو درکنار کرتے ہوئے یہ ملک اپنی گھریلو ضرورتوں کی سپلائی کے لیے روس سے کاروباری رشتے قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جرمنی جیسے یوروپی ملک نے کشیدگی کے باوجود مارچ کے ماہ میں روس سے 15فیصد زیادہ تیل خریدا ہے۔ روسی سیکورٹی کونسل سے وابستہ ایک افسر تو یہاں تک دعویٰ کررہے ہیں کہ مارچ کے آخری ہفتہ میں امریکہ نے بھی روس سے 43فیصد زیادہ تیل خریدا ہے۔ یہ ہر دن ایک لاکھ بیرل تیل کے آس پاس بیٹھتا ہے۔
ایسے میں باقی باتوں کو درکنار بھی کردیا جائے تو مغرب کس منھ سے ہندوستان کو روس سے دور رہنے کی نصیحت کررہا ہے ؟ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایندھن کی لاگت بڑھی ہوئی ہے اور پیداوار کے ساتھ ساتھ سپلائی چین بھی متاثر ہے، تو اپنے شہریوں کو مہنگائی کے اضافی اور ناقابل برداشت نظر آرہے بوجھ سے بچانا کسی بھی ملک کی حکومت کی اخلاقی جوابدہی ہوتی ہے۔ جب سے روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے، ہندوستان نے تقریباً 16ملین بیرل روسی تیل خریدا ہے۔ یہ گزشتہ سال کے پوری درآمدات کے برابر ہے۔ اس دوران ہندوستان نے روس کو ہزاروں ٹن سورج مکھی تیل اور کھاد کے خریداری کے آرڈر بھی دیے ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کی سیکورٹی کے پیش نظر ہندوستانی دفاعی شعبہ میں روس کے ساتھ کیے گئے پرانے معاہدے کو بھی اپنے انجام تک لے جانے کے لیے پرعزم نظر آیا ہے۔ چین کی وجہ سے بھی روس کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنا ہندوستان کے لیے ضروری ہے۔ چین کے ساتھ کسی بھی تنازع کو سلجھانے میں آج امریکہ کے مقابلہ میں روس ایک زیادہ کارگر متبادل ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ روس ہمارا پرانا دوست رہا ہے، لیکن یہ بھی اتنا ہی سچ ہے کہ اب امریکہ بھی ہمارا نیا شراکت دار بن چکا ہے۔ ہندوستان کے امریکہ اور روس دونوں کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں اور ان کی اپنی افادیت ہے۔ شروع سے ہی، روس نے ایشیا میں امریکہ اور کچھ حد تک چینی غلبہ کو بھی محدود کرنے کے لیے ہندوستان کے ساتھ اپنے اتحاد کو ترجیح دی ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی روس جیسی اہم عالمی طاقت کا ساتھ ہندوستان کو بین الاقوامی سیاست میں اپنی پکڑ مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ 1961 میں جب گوا، دمن اور دیپ پر پرتگالی حکومت کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان نے فوجی طاقت کا استعمال کیا، تو امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ترکی جیسے ممالک نے ہندوستان کی مذمت کرتے ہوئے فوجیوں کو فوراً واپس لینے کی تجویز رکھی تھی۔ لیکن اس وقت سوویت یونین چٹان کی طرح ہندوستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ یہی کشمیر کا بھی سچ ہے۔ گزشتہ صدی میں پچاس کی دہائی کے سوویت لیڈر خروشچیف کا یہ بیان تاریخ میں درج ہے کہ ہندوستان-سوویت یونین اتنے قریب ہیں کہ آپ جب بھی ہمیں ہمالیہ کی چوٹیوں سے بلائیں گے، تو ہم آپ کے پیچھے کھڑے نظر آئیں گے۔ تب سے سوویت یونین 1957، 1962 اور 1971میں مختلف مواقع پر کشمیر میں بین الاقوامی دخل کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ویٹو کرتا آیا ہے۔ اسی وجہ سے 70کی دہائی میں اس وقت کے وزیرخارجہ اٹل بہاری واجپئی نے روس کو ہمارا اکلوتا قابل اعتماد دوست تک کہا تھا۔
اس دوران ہندوستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقبل رکنیت والی سیاسی طاقت نہیں ہوتے ہوئے بھی اہم بین الاقوامی مواقع پر روس سے دوستی نبھائی ہے۔ سال 1956 میں جب ہنگری کے انقلاب کے پرتشددخاتمہ کے لیے پوری دنیا میں روس کی تنقید ہوئی تھی، تب ذاتی طور پر روس کے اس قدم سے ناخوش ہندوستان کے اس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اس کی عوامی طور پر مذمت سے پرہیز کیا تھا۔ تقریباً ایک دہائی بعد، 1968میں جب سوویت فوج نے پراگ اسپرنگ کو کچلنے کے لیے چیکوسلوواکیا پر حملہ کیا، تب اس وقت کی وزیراعظم اندراگاندھی نے لوک سبھا میں تو اس قدم سے عدم اتفاق ظاہر کرنے والی تقریر کی، لیکن اقوام متحدہ میں حملہ کی مذمت کرنے والی ایک قرارداد پر ہندوستان نے ووٹ سے پرہیز کیا۔ 1979میں ایک بار پھر افغانستان پر سوویت حملہ کی ہندوستان میں تو مذمت ہوئی لیکن جب ایسی ہی مذمتی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آئی تو ہندوستان ووٹنگ سے پرہیز کرنے والا واحد ناوابستہ ملک ہونے کے بعد بھی پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ 2000کے بعد سے یوکرین حملہ تک ہندوستان نے چیچنیا اور کریمیا جیسے مسئلوں پر کم سے کم چھ مواقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بالواسطہ طور پر روس کے حق میں ووٹنگ سے پرہیز کیا ہے۔
دوسری طرف آزادی کے بعد کی کئی دہائیوں تک ہمارے مقابلہ میں پاکستان کو ترجیح دینے والا امریکہ آج ہمارا زیادہ قریبی کاروباری شراکت دار بن گیا ہے۔ اس کے باوجود روس سے دوستی کی ہماری پرانی روایت تل بھر بھی نہیں بدلی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یوکرین جنگ میں ہندوستان نے جس پہلو کا انتخاب کیا ہے وہ امن کا ہی ہے۔ بدلے حالات میں روس کو حمایت جاری رکھنا ہماری سفارتی باریکیوںکو ظاہر کرتا ہے۔ وہیں زبردست دباؤ کے درمیان روس سے دوستی توڑنے کی خواہش نہ ہونے کے باوجود امریکہ کی ناخوشی کو ایک محدود دائرہ میں رکھنے میں بھی حکومت کم سے کم ابھی تک تو سفارتی طور پر کامیاب رہی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
یہ دوستی ہم نہیں توڑیں گے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS