خواجہ عبدالمنتقم
الارض (دھرتی پتر)ملائم سنگھ یادو ایک مقبول عام شخصیت اور مقبول عام سیاسی رہنما ضرور تھے مگر کسی کو یہ گمان تک نہیں تھا کہ ان کے سیاسی حبیب توحبیب ان کے سیاسی رقیب بھی انہیں اس طرح شریک غم ہوکر اتنے رقت آمیز انداز میں، اتنی نم آنکھوں سے اور اتناجذ بات انگیز طریقۂ اظہاراختیار کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کریں گے اور تمام ٹی وی چینل بشمول ان چینلوں کے جنہیں مبینہ طور پر حکومت دوست کہا جاتا ہے، ان کے انتقال اور ان سے وا بستہ نجی و سیاسی یادوں کے کوریج کے لیے اتنا وقت دیں گے۔بظاہر تو یہ ایک اچھا شگون ہے۔کس کس نے ان کے بارے میں کیا کیا کہا، اس کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہم نے مابعد صرف ان چند شخصیتوں کے پیغامات، جن کی تفصیل سے ہمارے اخبارات کے صفحات کے صفحات بھرے پڑے ہیں،کوان کی اشارتی نوعیت کے اعتبار سے،اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے تا کہ قارئین اس بات کا اندازہ لگا سکیں کہ غم کی گھڑی میں ہم ہندوستانی اپنے ہمیشہ کے لیے گہری نیند سونے والے رہنماؤں کے کتنے قدر شناس ہیں، کینہ پرور نہیں،خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ اگر یہی صورت حال مستقل صورت اختیار کر لے اور ہمارے سیاسی رہنما اپنی عام سیاسی زندگی میں حلم و برداشت، استقامت، صبر، راست گفتاری، حسن سلوک، دشمنوں کے ساتھ رحم، عفو و درگزر ، صلح میں نرمی اور ملائمت ،ایک دوسرے کی بے جا تنقید سے احتراز ، غیرشائستہ زبان کا عدم استعمال جیسی خوبیاں پیدا کر لیں تو یہ خطۂ ارض جنت نظیر بن جائے اور ابنائے ارض کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ معمول بن جائے۔
ملائم سنگھ یادو کا تعلق ایک عام خانوادہ سے تھا اور ان کی عامیانہ روش ایک عام ہندوستانی کی طرح ہمیشہ عامیانہ ہی رہی اور انہوں نے حساس صورت حال میں اور اپنی سخت تنقید کے معاملے میں بھی اپنی اعتدال پسندی کی روش سے کبھی کنارہ کشی نہیں کی اور اپنی زبان پر ہمیشہ قابو رکھا۔ چند افراد کی لغزش زبان ،لہجہ ٔ تلخ اور لہجۂ بے باک سے پورا کھیل بگڑ جاتا ہے۔ملائم سنگھ کو ایک عام اکھاڑے میں کشتی لڑنے سے حسب دلخواہ کامیابی تو نہ حاصل ہوسکی مگر سیاسی اکھاڑے میں جو کامیابیاں انہوں نے حاصل کیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں اور ہم سب ان سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ماسوائے چند جوانی کی لغزشوں کے ان کے تشدد آمیز رویہ کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں۔البتہ انتظامی امور اور ملک و قوم کے مفاد میں کچھ ایسے ناپسندیدہ کام کرنے پڑتے ہیں،جنہیں سماج کے کچھ طبقات پسند نہیں کرتے اور ایسا ہر دور میں ہوتا ہے اور ہوتا آیا ہے۔ان کی نرم گفتگو و شیریں زبانی ،دوستوں سے دوستی نبھانے ، شکایت کنندگان و متاثرین کی روداد اطمینان سے سننے، اپنے محسنوں کو کبھی نہ بھولنے کی تو مثالیں عام ہیں۔ ان کی مقبولیت کو کسی ایک طبقہ سے منسوب کرنا کج روی کے سوا اور کچھ نہیں۔وہ سب کے تھے۔ وہ ایک دور اندیش انسان تھے۔ وہ فوجی مصلحت و حکمت عملی، فن حرب کی ضروریات، دشمن کی بروقت نہیں بلکہ قبل از وقت پہچان کرنے کے اہل تھے مگر ساتھ ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قائل تھے۔ان میںیہ خوبیاں ایک دن میں نہیں پیدا ہوگئیں۔ انہوں نے سماج واد کو سمجھا اور اسے اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ لوہیا اور جے پرکاش نرائن کا صرف نام ہی نہیں لیا بلکہ ان کے اصولوں کو زمین پر اتارا۔اگر کمزور طبقات کے کاز کی وکالت کی تو دیگر طبقات کی ترجیحات کا بھی پورا پورا خیال رکھا مگر یرقانی آنکھوں کو ہر شے روپہلی دکھائی دینے کے بجائے صرف زرد نظر آتی ہے۔ہریانہ کی ایک کہاوت ہے کہ جب ساس کو اپنی بہو میں کوئی کمی نظر نہیں آئی تو اس نے یہ کہہ کر کہ آٹا گوندنے میں ہلتی کیوں ہے، اپنی بھڑاس نکال لی۔ ہونا یہ چاہیے کہ قابل مذمت افراد کی مذمت کی جانی چاہیے اور قابل تعریف افراد کی تعریف،خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔
ملائم سنگھ نے زندگی بھر نہ صرف مذہبی رواداری، مساوات،اتحاد اور اتفاق و یکجہتی کی بات کی بلکہ اپنے قول و فعل کی ہم آہنگی سے یہ ثابت بھی کیا کہ وہ ہندوستان میں قومی ایکتا کے عملی علمبردار تھے۔ انہوں نے گمراہ لوگوں کو قومی ایکتا کی اہمیت سے جہاں روشناس کرایا، وہاں پیار اور محبت سے رہنے کا درس دیا اوروہ ہندؤوں اور مسلمانوں دونوں کو مخاطب کر کے کہا کرتے تھے کہ بھیدبھاؤ چھوڑ و اور سب مل جل کر رہو۔انہوں نے نہ تو کبھی کسی مذہب کی مقدس کتابوں، دھرم گرنتھوں، پیغمبروں، پیامبروں و مذہبی شخصیات و خدارسیدہ بزرگوں کو برا کہا اور نہ ہی اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی۔گو شجرتو اپنے پھل کی شیرینی سے غافل رہتا ہے، اس کا ذائقہ تو کھانے والے ہی بتا سکتے ہیں۔ملائم سنگھ یادو کی قدر شناسی کے اس سے زیادہ معتبر ثبوت اور کیا ملیں گے کہ صدر مملکت محترمہ دروپدی مرمو نے یہ کہہ کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا کہ دھرم پتر ملائم سنگھ یادو کا انتقال ملک کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے،ان کے کارہائے نمایاں غیر معمولی تھے، وہ زمین سے جڑے ایک تجربہ کار رہنما تھے اور تمام جماعتوں کے لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔وزیراعظم نے ان سے اپنی قربت کو ان الفاظ میں بیا ن کیا کہ ’ملائم سنگھ یادو جی کے ساتھ میرا بہت خاص رشتہ رہا ہے۔جب ہم دونوں وزیراعلیٰ کے طور پر ملتے تھے تو دونوں کو اپنائیت کا خاص احساس ہوتا تھا۔2019میں پارلیمنٹ کا آخری اجلاس تھا اور ملائم سنگھ یادو جیسے سینئر لیڈر نے پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہو کر جو بات کہی، وہ کسی بھی کارکن کی زندگی میں بہت بڑے آشیرواد کی طرح ہے۔ انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا تھا کہ مودی جی سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور اسی لیے مجھے یقین ہے کہ وہ 2019 میں دوبارہ منتخب ہو کر ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔ آج میں گجرات کی سرزمین سے ملائم سنگھ جی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ امت شاہ نے یہ کہہ کر اظہار افسوس کیا کہ ملائم سنگھ یادو جی اپنی بے مثال سیاسی مہارت سے کئی دہائیوں تک سیاست میں سرگرم رہے۔ یوگی جی نے ان کی موت کو انتہائی تکلیف دہ بتایا۔سونیا گاندھی نے یہ کہہ کر انہیں خراج عقیدت پیش کیا کہ آج سماجوادی فکر کی ایک آواز خاموش ہو گئی ،تو راہل گاندھی نے کہا کہ وہ زمین سے جڑے ایک سچے سپاہی تھے۔ ادھر مایا وتی اور کجریوال نے بھی ان کے انتقال پر اظہار افسوس کیا۔ شرد پوار نے یہ کہہ کر ملائم سنگھ یادو کو خراج عقیدت پیش کیا کہ انہوں نے فرقہ پرست طاقتوں سے لڑنے اور سماجوادی سماج بنانے کا کام کیا۔مولانا محمد رابع حسنی ندوی نے یہ کہہ کرخراج عقیدت پیش کیا کہ وہ اقلیتوں کے سچے ہمدرد تھے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]