محمد حنیف خان
ترقی کا خواب ہر آنکھ میں ہوتا ہے، کوئی فرد ایسا نہیں جس کی پلکیں خوابوں سے گرانبار نہ ہوں،جو ترقی یافتہ ہے وہ نئی دنیائیں فتح کرنا چاہتا ہے اور جس نے ابھی ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھا، وہ بام عروج پر پہنچنا چاہتا ہے۔یہ خواب اور خواہش انسانی زندگی کا منبع و مصدر ہے، لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ اول وہ خواب نہیں دیکھتے اور اگر دیکھتے ہیں تو ان خوابوں کو چھین لیا جاتا ہے جس کے متعدد طرق اختیار کیے جاتے ہیں۔مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد ایسی ہے جس کی تعلیم دو طرح کے مدارس میں ہوتی ہے، ایک وہ مدارس جو حکومت سے منظور شدہ ہیں اور دوسرے وہ مدارس جو حکومت سے کسی قسم کی مراعات کے بجائے عوامی تعاون سے چلتے ہیں،ان دونوں کے الگ الگ خواب ہوتے ہیں۔ثانی الذکر کا مطمح نظر مذہبی تعلیم درک حاصل کرنا ہوتا ہے تاکہ زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزاری جاسکے اور دوسروں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا جا سکے، جب کہ اول الذکر کا مطمح نظر دین و دنیا دونوں کی کامیابی ہے۔ایک کامیاب انسان وہی ہے جو دین اور دنیا دونوں کو اچھی طرح سمجھ لے، مگر کیا آج کے حالات میں ایسا ممکن ہے؟کیا منظور شدہ مدارس اپنے مقاصد میں کامیاب ہیں؟حکومتوں نے جس مقصد سے ان کو مراعات دینے کا فیصلہ کیا تھا، کیا وہ مقاصد حاصل ہورہے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ذہن میں آ رہے ہیں۔کیونکہ ہر قوم نئی صبح اور نئی شام چاہتی ہے اور جب اسے وہ نہیں ملتے تو اس کا جائزہ لینا ضروری ہوجاتا ہے۔
ملک میں جب بھی انتخابات آتے ہیں، سیاست دانوں کی زنبیل سے نئے نئے مسائل،نئی نئی اسکیمیں اور نئے نئے منصوبے باہر نکلنے لگتے ہیں،2024میں ملک میں عام انتخابات ہوں گے، اس لیے میدان کارزار میں جانے اور اس میں کامیابی کے لیے سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں نے کمر کسنا شروع کردیا ہے۔جس کا اظہار ایک برس پہلے سے کیا جانے لگا تھا اور عوام بھی محسوس کرنے لگے تھے کہ اب نئی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی نے بھوپال، مدھیہ پردیش کے ایک جلسے میں سب سے پہلے اس جانب توجہ دلائی اور انہوں نے پارٹی اور اپنی مادری تنظیم و بنیادی تعلیمات کے برخلاف ’’پسماندہ‘‘ مسلمانوں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے ان کی ناگفتہ بہ حالت کا ذکر کیا۔یہ وہی پارٹی ہے جس کے ممبران پارلیمنٹ میں ایک بھی منتخب ممبر مسلم نہیں ہے۔اس کے باوجود انہوں نے پسماندہ مسلمانوں کی جانب دیکھا۔ان کے دیکھنے اور اس جانب توجہ دینے میں متعدد سیاسی مفادات پوشیدہ ہیں،جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔
در اصل بی جے پی کی حکومت ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘کے نعرے کے تحت عوام کو خود سے جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے،اس ضمن میں اس کی نگاہ پسماندہ مسلمانوں پر گئی، کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ ہندوستان کے 15فیصد مسلمانوں میں 80فیصد پسماندہ مسلمان ہیں اور محض 20فیصد ہی اعلیٰ طبقے کے لوگ ہیں۔اسلامی تعلیمات میں تفاوت کا گزر نہیں،اس نے یکسانیت کی تعلیم دی ہے، اس کے باوجود ابتدا سے ہی ہندوستان میں شریف و رذیل طبقات زیر بحث رہے ہیںاور یہ اصطلاحیں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ اعلیٰ طبقے کے لیے شریف اور نیچی ذاتوں(پسماندہ) کے لیے رذیل کا لفظ مستعمل رہا ہے۔یہ طبقاتی تقسیم بھی مسلمانوں میں برادران وطن کی وجہ سے ہی آئی ہے، کیونکہ یہاں لوگ چار ورنوں میں ابتدا سے ہی تقسیم رہے ہیں، جسے مذہبی تحفظ بھی حاصل رہا ہے۔چونکہ ہندوستان میں اکثریت ان مسلمانوں کی ہے جن کے آباء و اجداد مذہب اسلام کی تعلیمات،یکسانیت اور اس کے نظام زندگی کو دیکھ کر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، ایسے میں بردران وطن کا طبقاتی نظام مسلمانوں میں بھی سرایت کر گیا اور وہ خود اس کا شکار ہوگئے۔حالانکہ جس شدت کے ساتھ برادران وطن میں یہ طبقاتی تقسیم موجود ہے، اس طرح آج بھی مسلمانوں میں نہیں ہے،پھر بھی یہ تقسیم آج بھی کہیں نہ کہیں موجود ہے، جس کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے وقتاً فوقتاً کیا جاتا رہا ہے۔مسلمانوں میںمتعدد ایسے افراد ہیں جو صرف طبقاتی تقسیم کی سیاست کرتے ہیں اور اسی نام پر ان کی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں ہیں۔اسی خلیج کو بڑھانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اب ملک کی بڑی بڑی پارٹیاں کوشاں ہوگئی ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں سے پسماندہ طبقات کی سیاست کا مقصدصرف یہ رہا ہے کہ ووٹوں کو منتشر کرکے ان کی اہمیت ختم کردی جائے، جس کا نتیجہ گزشتہ چند انتخابات میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ایسے افراد سیاسی جماعتوںسے سودا کرکے یہ کام کرتے ہیں اور ایسا کرنے والے افرادصرف انتخابات کے دنوں میں ہی دکھائی دیتے ہیں جن کی شناخت کوئی مشکل امر نہیں ہے۔آئندہ عام انتخابات میں اس جانب زیادہ شدت سے توجہ دی جائے گی اور مسلمانوں کے ووٹوں کو ناکارہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
ان سیاسی جماعتوں اور ایسی ذہنیت کے حامل افراد کیلئے پسماندہ مسلمانوں کی تعلیم، روزگار اور ان کی معاشی ترقی اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کے لیے اہم ان کا ووٹ ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو آج مدرسہ جدید کاری اسکیم کا اتنا برا حال نہیں ہوتا، کیونکہ ان مدارس میں 99فیصد مسلم بچے پڑھتے ہیں اور ان بچوں میں بھی 95فیصد پسماندہ طبقات کے بچے ہی ہیں۔ اتر پردیش مدرسہ بورڈ نے یہ بات خود تسلیم کی ہے۔
مسلم بچوں خاص طور پر پسماندہ طبقات کے بچوں کو جدید تعلیم سے جوڑنے کے لیے مدرسوں کی جدید کاری کی گئی اور علوم متداولہ کے ساتھ عصری علوم سے آگاہی کے لیے ان مدارس کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی گئی۔مرکزی حکومت نے 1993 میں یہ اسکیم شروع کی اور مدارس میں ماڈرن ٹیچروں کی تقرری کی تاکہ وہ ان بچوں کو جغرافیہ، ریاضی اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم دے کر اس پورے طبقے کی ترقی کی راہ کو آسان کریں۔جس میں 60فیصد تنخواہ مرکزی حکومت اور 40فیصد ریاستی حکومت کو دینا تھا۔اس اسکیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتر پردیش میں اس وقت حکومت سے 7442منظور شدہ مدارس میں جدید مضامین کی تعلیم دی جارہی ہے، جس میں 21546 اساتذہ درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جدید تعلیم کے نام پر ہی ان مدارس میں غیر مسلم اساتذہ کی بھی تقرریاں عمل میں آئیں، مگر آج ان مدارس،یہاں کے اساتذہ اور طلبا کی کیا حالت ہے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تقریباً 6برس سے مرکز سے 21ہزار سے زیادہ اساتذہ کی تنخواہ کے 1762 کروڑ روپے نہیں ریلیز کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے ریاست سے ملنے والی 40فیصد تنخواہ بھی نہیں مل پا رہی ہے۔جب اساتذہ کو تنخواہیں نہیں ملیں گی تو وہ درس و تدریس کا فریضہ کیسے انجام دیں گے؟یا ایسے اساتذہ جن کو تنخواہیں نہ مل رہی ہوں وہ کس لگن سے تعلیم دیتے ہوں گے،اس سے ان مدارس کے طلبا کی تعلیم کے معیارکا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پوشیدہ ہوتا ہے،جب مسلم بچوں کو تعلیم ہی نہیں ملے گی تو بھلا وہ ترقی کیسے کریں گے۔
متعددبار ایسا ہوا ہے کہ وزیراعلیٰ سمیت دیگر اہم عہدوں پر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں نے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ وہ ان کو اچھی تعلیم دینا چاہتے ہیں، مگر مسلمان اس کی مخالفت کرتے ہیں۔وزیراعلیٰ اترپردیش نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ہم لوگوں کو طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنی موجودہ نسل کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں‘‘۔کسی نے ان کی بات پر توجہ دی ہو یا نہ دی ہو،پسماندہ مسلمانوں نے ضرور اپنی نئی نسل کو ان کے حوالہ کردیا ہے کہ آپ ہی طے کریں کہ ہمیں اس نسل کو کہاں لے جانا ہے۔اب مسلمانوں کو ان مدارس سے ناامیدی مل رہی ہے اور سچ بھی ہے کہ ان مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد مین اسٹریم کا حصہ نہیں بن پاتے ہیں، سوائے اس کے کہ وہ ان ہی مدارس میں بطور ٹیچر ملازمت کرنے لگیں،حالانکہ مقصد یہ تھا کہ ان بچوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے اور انہیں اس قابل بنایا جائے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اسکول و کالج میں پڑھنے والے بچوں کی طرح اپنا کردار ادا کریں۔
سیاست داں جو حکومت میں ہیں، ان کو صرف پسماندہ طبقات کے ووٹوں پر ہی نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کی اصل پریشانیوں کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے، جس طرح ملک میں دوسرے تعلیمی بورڈ ہیں اور ان کے تحت تعلیم و تعلّم کا شفاف سلسلہ چل رہا ہے اسی طرح مدرسہ بورڈ میں بھی اصلاح اور شفافیت کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر یہ مدارس اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں اور اسی سے مسلم خصوصاً پسماندہ طبقات کی نئی نسل نئی صبح اور نئی شام سے آشنا ہو سکتی ہے۔
[email protected]