ہم سوتے ہیں اور خوب سوتے ہیں: زین شمسی

0

زین شمسی

کمال یہ ہے کہ صبح اٹھنے کی عادت ہوگئی ہے۔ سنتا آیا ہوں کہ صبح صرف تین لوگ اٹھتے ہیں ، ماں، محنت اورمجبوری مگر میں ان تینوں میں سے شاید کوئی نہیں ہوں تو پھر میں کیوں صبح اٹھنے لگا۔ سوچتا ہوں کہ اس تین میں ایک اور چیز جوڑ دوں تجربہ۔ میں صبح نئے تجربہ کے لیے اٹھنے لگا ہوں۔ قارئین کے لیے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ میں گزشتہ35سال سے اگتے ہوئے سورج کو نہیں دیکھ پایا اور اگر کبھی کبھار دیکھا بھی تب ایسے کہ پوری رات جاگنے کے بعد ناشتہ کر کے سویا اور اس درمیان سورج کو دیکھنے کا موقع ملا ،لیکن اکثر میں نے محسوس کیا کہ سورج ہی مجھے متعجب نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ گھر سے لے کر شناساؤں میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس نے مجھے یہ نہ کہا ہو کہ شمسی کی تو بات ہی نہ کرو وہ تو دوپہر چڑھے سوتا رہا ہے۔ میرے جاننے والے کئی دفعہ شکایت کرچکے ہیں کہ میں آپ کے دروازے پر کھڑا رہا ، زور زور سے زنجیر کھٹکھٹائی،فون بجایا مگر آپ نے دروازہ نہیں کھولا۔ آپ بے حد بداخلاق ہیں۔میں نے ان سے معافی مانگی اور بس اتنا کہا کہ اگر آپ میرے گھر آنے کا وقت بدل لیں گے تو بااخلاق نظر آئوں گا۔ میرے اک دوست ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ مولوی اور پنڈت صرف اس لیے بیمار نہیں ہوتے کہ صبح گاہی ان کی عادت ہوتی ہے۔ اس بات کو کنفرم کرنے کے لیے جب میں حاجی حجت کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے مکمل طور پر اس کی کوئی جانکاری تو نہیں ہے مگر جن دو لوگوں کا نام تم بتا رہے ہو وہ بیمار پڑیں یا نہ پڑیں، اپنی قوم کو تو بیمار کر چکے ہیں۔ صبح کی تعریف یوں تو بہت سے لوگوں نے کی ہے اور صبح کاذب کی، مگر جوش صاحب نے حد کر دی تھی کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
گویا جوش صاحب صبح کو دیکھ کر ہی ایمان لاچکے تھے۔ انہیں رسول کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ظاہر ہے کہ جوش صاحب نے جب صبح کو ہی اپنا ایمان مان لیا تھا تو پھر ایمان کے کئی پیمانے بھی بن گئے۔
اتنے سارے سوالات سے تنگ آکر میں نے ایک دن کوشش کی کہ دیکھوں جو لوگ صبح اٹھ جاتے ہیں وہ آخر کرتے کیا ہیں؟ تو ایک دن میں نے بے حد جرأت مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے صبح کو جاگنے کا فیصلہ لے لیااور شومئی قسمت کے جاگ بھی گیا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ امی نماز کی تیاری کر رہی ہیں اور گھر کے سبھی فرد الصلوۃ خیرمن النوم کی آواز کے وقت خراٹے لے رہے ہیں۔ میں نے سوچا چلو مسجد چل کر دیکھتے ہیں، وہاں کے مقتدیوں کو پہچانتے ہیں۔ اتنی بڑی مسجد میں مشکل سے اگلی صفیں بھری ہوئی تھیں۔ یہ سمجھ لیجیے نماز جمعہ کے حساب سے تین فیصد۔ نماز پڑھ کر مقتدیوں سے ہاتھ ملا کر باہر نکلا توپولو گرائونڈ کی طرف چہل قدمی کا ارادہ کیا۔ راستے میں عورتیں اور بوڑھے گنگا اشنان کے لیے جاتے ہوئے نظر آئے۔ میدان میں نوجوانوں کی بھیڑ دیکھی، سب لوگ اپنی اپنی طرح سے ورزش کر رہے تھے۔ کچھ لوگ فٹ بال اور کرکٹ بھی کھیل رہے تھے۔ خوشی ہوئی کہ نوجوان نسل آج بھی دوڑ دھوپ کرتی ہے انہیں موبائل نے پوری طرح گرفت میں نہیں لیا ہے، تبھی ادھر سے ایک شناسا میری طرف آئے، مصافحہ کیا۔ میں نے نئی نسل کے نوجوانوں کی تعریف کی۔ وہ ہنسے اور کہنے لگے جو آپ سوچ رہے ہیں، ویسا کچھ نہیں ہے۔ یہ لوگ یہاں صرف اس لیے ہیں کہ پولیس بھرتی کا اشتہار آیا ہے۔ ان میں سے کئی سارے لگاتار پولیس بھرتی میں ناکام ہو رہے ہیں، جس کے سبب ان کی ورزش کی عادت مجبوری میں بدل گئی ہے۔ آپ ان کے جسم کی بناوٹ کو دیکھ کر متاثر ہوگئے۔ پولیس بھرتی کے لیے انہوں نے باڈی کو کثرتی بنا لیا ہے ورنہ آپ کو نظر نہیں آتا کہ پولیس کی بحالی کے بعد داروغہ کا پیٹ کتنا کشادہ ہوجاتا ہے۔ یہاں ورزش بھی بے روزگاری کو دور کرنے کا بہانہ ہے۔ صحت کا خیال کوئی نہیں رکھنا چاہتا۔
وہاں سے نکلا تو سورج نے تپش دینی شروع کر دی تھی۔ گنگا گھاٹ پر غریبوں کے لیے پوجا کرتے پنڈتوں کی آواز ہر سو سنائی دے رہی تھی۔ صبح اٹھنے پر پنڈت کیوں نہیں بیمار پڑتے، اس کا راز ان کی دان پیٹی میں چھپا ہوا تھا نہ کہ صبح گاہی میں۔ صبح گاہی تو مجبوری تھی کہ اگر وہ نہ اٹھ پائیں تو شردھالو اشنان تو کرکے بغیر دان دیے گھر لوٹ جائیں گے۔
گھر واپس ہوا تو بالکل خاموشی تھی، مجھے لگا اب تک مجھے دیر تک سونے کا طعنہ دینے والے لوگ خود انٹا غفیل ہیں، مگر غور سے دیکھا تو سب لوگ بیدار تھے مگر سب کے ہاتھ میں موبائل تھا اور کان میں ایئر فون۔ میں نے آواز دی تو کسی نے سنا بھی نہیں۔صرف امی نے اتنا کہا کہ کیا کوئی پریشانی ہے جو صبح صبح اٹھ گئے ہو۔ میں نے کہا نہیں صبح اٹھ جانے کے بعد پریشانی میں مبتلا ہوا ہوںیہ سوچ کر کہ صبح اٹھنا ضروری ہے یا صبح اٹھ کر کام میں مصروف ہوجانا۔ ویسے بڑے بڑے کام تو رات میں ہی کیے جاتے ہیں۔ سیاسی لیڈروں کے یہاں پیسے پہنچانا، حکومت گرانا، ٹھیکہ داروں کی میٹنگ ، رشوتوں کا لین دین اور غریبوں اور کسانوں کے استحصال کی پالیسی کا ڈرافٹ اندھیری راتوں میں عمل میں آتا ہے اور یہ رات کی حکمت عملی ہی ہے کہ صبح کو محنت اور مجبوری کو اٹھنا لازمی ہو گیا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS