وبا سے سبق لے کر خود کو بدلنے کی ضرورت

اب بھی نہیں کی اصلاح تو کبھی بدل نہیں پائیں گے

0

چیتن بھگت

ہم نے سب دیکھ لیا ہے، آکسیجن کے لئے تڑپتے لوگ، ندیوں میں تیرتی لاشیں، وبا کا جیسا اثر ہندوستان پر ہوا کسی ملک پر نہیں ہوا ہے۔ اس سے بھی برا یہ کہ ہندوستان 2021میں متاثر ہوا، جب ویکسین آچکی ہے اور کئی ملک کووڈ بحران سے باہر آرہے ہیں، ہم کسی اور پر الزام لگاسکتے ہیں لیکن اندر سے جانتے ہیں کہ اس گڑبڑی کے لئے ہم ذمہ دار ہیں۔ ہماری قیادت ناکام رہی ہے، المیہ یہ ہے کہ یہ آزادی کے بعد کی سب سے محبوب اور حمایت یافتہ قیادت ہے۔ اس لئے ذمہ داری ہم شہریوں کی بھی ہے، جنہوں نے سوچا کہ یہ اب تک کہ سب سے بہترین سرکار ہے۔
اگر اس قیامت سے ہم نہیں سیکھے تو ہمیں کوئی نہیں سکھاسکتا۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، بات یہ ہے کہ کسی کو شرمندہ کرنے کی بجائے بہتری کے لئے بدلائو کریں۔ ہمیں سوچنے کا طریقہ بدلنا ہوگا، یہ کہ ہم کیا سوچ کر ووٹ دیتے ہیں، کیسا ہماری قیادت سلوک کرتی ہے اور آخر کار ملک کا کیا حال ہوتا ہے،ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
1- ’ہم بنام وہ‘ قدیم، استحصالی اور نقصاندہ انسانی برائیاں ہیں۔ انسان کی فطرت ہے کہ ہم ’اپنے جیسوں‘ میں تحفظ تلاشتے ہیں اور ’ان‘ جیسوں سے دور ہوتے ہیں۔ ہندو مسلم پوری اسٹوری اسی انسانی برائی سے چل رہی ہے۔ یہ ہیلتھ کیئر، تعلیم، معیشت اور حکومتی قیمت پر ملک کی سیاست کا تعین کرتی ہے۔ نہیں، ہندو بھی ایک نہیں ہیں، سبھی امیر ہندو، غریب ہندو کے ساتھ پیسہ شیئر نہیں کرتے، کئی ہندو ٹھیکیدار، روز ہندو مزدوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ہندو ڈاکٹر اور نرس بھی علاج کرتے ہیں۔ یہ سوچ کہ ہندو طبقہ ساتھ مل کر رہتا ہے، ایک تصور ہے۔ یہ صرف ’ہم بنام وہ‘ کا اظہار ہے۔ یہ ذہنیت ترک کرنی ہوگی۔ مذہب اور سیاست کو نہ ملائیں،یہ برباد کرتی ہے۔ سرکاریں بھگوان نہیں ہیں۔ بھگوان آستھا کا موضوع ہے۔ سرکاروں پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں کو کبھی ملائیں نہیں۔

سبق ہی امید ہے
ہم بھٹک گئے ہیں، ’ہم بنام وہ‘ کی غلط سوچ میں چلے گئے ہیں۔ ہم نے سرکار اور ایشور کو ملادیا ہے۔ اس لئے لگنے لگا ہے کہ سرکار میں غیر متزلزل آستھا ہونی چاہیے اور سوالات نہیں اٹھانے چاہئیں۔ اچھی بات یہ کہ ہم سبق لے سکتے ہیں کہ ہم غلط تھے اور بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم تردید اور جہالت کے جذبات میں رہیں گے تو اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے۔

2- جدید سائنٹفک سوچ اور سرمایہ کاری کا احترام۔ آج وہ ملک وبا سے باہر آرہے ہیں جو سائنس اور پیسے کا احترام کرتے ہیں،ہم نہیں کرتے۔کسی ہندوستانی سے سائنس کا ذکر کیجئے وہ قدیم گرنتھوں کا ذکر کرنے لگے گا اور بتائے گا کہ وہ کیسے ان کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ سائنس کا مطلب ہے یہ تسلیم کرنا کہ ہم سب کچھ نہیں جانتے۔ زیادہ تر کم پڑھے لکھے سائنسداں ہندوستان کے ماضی میں پھنسے ہیں۔ جدید دوائیں ’سفید پوش لوگ‘ بنام ہم نہیں ہیں۔ یہ استعمال تجزیوں اور تجربات پر مبنی ہے۔ کئی ملکوں کے پاس ویکسین ہے کیونکہ انہوں نے سرمایہ لگایا ہے۔ صرف ویکسین بنانا کافی نہیں ہے۔ ہم نے ڈوز پانے کے لئے ضروری سرمایہ نہیں لگایا۔ آج ہم اسی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
3- میڈل پانے کی جلد بازی نہ کریں۔ ہندوستان کی کامیابی کی خواہش اچھی ہے۔ حالانکہ جلدی جشن منانا اور ضروری کامیابی حاصل کئے بغیر اس کی مدح سرائی کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ کئی ہندوستانی چاہتے ہیں کہ ہندوستان کامیاب دکھائی دے، لیکن ہم ابھی کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ کئی بنیادی معیاروں پر ہم ابھی بھی تیسری دنیا کے ملک ہیں۔ ہمارے ہیلتھ کیئر سیکٹر کی بری حالت حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ ہم ویکسین سے پیٹنٹ ہٹانے کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں۔ کیا سپر پاور ایسا ہوتا ہے۔ ہم ایک ہاتھ سے سینہ ٹھونکنا اور دوسرے سے بھیک مانگنا جیسے کام کیسے کرسکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے ہاتھ آئندہ کچھ دہائیوں میں راشٹر کی تعمیر نہیں لگاسکتے؟
مضمون نگار انگریزی کے ناول نگار ہیں
(بشکریہ: دینک بھاسکر)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS