وسیم اکرم تیاگی
تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشانہ ہوا
مرزا کے اس شعر میں غالب کو شاہین باغ اور ہم کو نیوز چینل پڑھاجائے۔9 مئی کا دن چینلوں اور ان کے ان حامیوں کے لئے طے کیاگیا تھا جو روز مسلمانوں کے استحصال کا نیا نشہ چاہتے ہیں مگر ہائے ، ہونہ سکا۔
گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستانی سیاست نے کئی مہلک، عوام مخالف اور ضدی تجربات سیکھے ہیں۔انہیں میں ایک نئی تکنیک بلڈوزر ہے ۔عدالت کے باہر لوگوں کو سبق سکھانے کے اس غیر آئینی ضد نے بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں ضابطوں اور قانون کو طاق پر رکھ کر بلڈوزر سے لوگوں کو سبق سکھایاہے۔
دہلی کے جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے موقع پر پیش آئے تشدد کے فوراً بعدتجاوزات ہٹانے کے نام پر جس طرح بلڈوزر چلایاگیااس کے جھٹکے دہلی کے دوسرے علاقوں میں محسوس کئے گئے۔جہانگیر پوری کے فوراً بعد بی جے پی لیڈروں کی جانب سے شاہین باغ میں بلڈوزر چلائے جانے کی مانگ کی جانے لگی۔ایم سی ڈی میں برسراقتدار بی جے پی نے اپنے لیڈروں کی اس مانگ کے پیش نظر کالندی کنج ، سنگم وہار، اوکھلا کے شاہین باغ کو تجاوزات سے پاک کرانے کے لئے نشان زد کیا۔شاہین باغ کا نام آتے ہی میڈیا کو مسالہ مل گیا ، ٹی وی پر بحث ہوئی ، طے ہوا کہ 9مئی کو شاہین باغ میں بلڈوزر چلے گا۔ اس خبر کے بعد شاہین باغ میں روڈ پر پٹری لگانے والے پٹری والوں نے اپنا سامان سمیٹ لیا ، جس کی وجہ سے تجاوزات ہٹانے گئے بلڈوزر کو بیرنگ لوٹنا پڑا۔بغیر کسی دکان یا مکان کو گرائے واپس لوٹے بلڈوزر کے ساتھ ہی شاہین باغ میں موقع پر موجود نیوز چینلزکے صحافیوں کے چہرے لٹک گئے۔
تقریباًایک ہفتہ سے ’گودی میڈیا‘کے اینکرس شاہین باغ میں بلڈوزر چلائے جانے کا انتظار کررہے تھے ، یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی بلڈوزر شاہین باغ پہنچا تو وہاں پر پہلے سے ہی موجود گودی میڈیا کے رپورٹر بلڈوزر پر چڑھ گئے۔انہوں نے اچھل اچھل کر رپور ٹنگ کرنا شروع کردی،لیکن جب ایم سی ڈی کو تجاوزات کے نام پر ہٹانے کے لئے کچھ نہیں ملا تو ایک ایک کرکے سب کے چہرے اترتے چلے گئے۔ان کی وہ خوشی غائب ہوگئی جسے انہوں نے ہفتہ بھر سے شاہین باغ میں چلنے والے بلڈوزر کی خاطر روکے ہوئے تھے۔اب سوال ہے کہ آخر گودی میڈیا کے اینکرز اور برسراقتدار پارٹی کے لیڈر شاہین باغ میں بلڈوزر چلتے ہوئے دیکھنا کیوں چاہتے ہیں۔اس کا سیدھا جواب ہے کہ شاہین باغ مسلم مزاحمت کا چہرہ ہے۔ 2019-20 میں جب اکثریت کے نشے میں دھت مرکزی سرکار کے ذریعہ سی اے اے جیسا نسل پرست قانون بنایاگیا، تب اس قانون کے خلاف شروع ہوئی سی اے اے مخالف تحریک نے شاہین باغ کو مسلم مزاحمت کا چہرہ بنادیا۔اسی تحریک نے ملک بھرمیں سی اے اے مخالف تحریک کو ایک سمت دی۔یہی وجہ تھی کہ ملک بھر میں سی اے اے کے خلاف جہاں بھی دھرنا چل رہاتھا اسے شاہین باغ کا نام دیا گیا۔ پھر یوں ہوا کہ 2020میں ہونے والے دہلی اسمبلی انتخابات کی تشہیر کے دوران بی جے پی لیڈر امت شاہ کو کہنا پڑا کہ بٹن اتنی زور سے دبانا کہ کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔زبان کھونے والی جمہوریت کوشاہین باغ نے مہذب زبان دی۔تشدد پر آمادہ راشٹروادیوں کو شاہین باغ نے عدم تشدد کا راستہ دکھایا۔ حکومت کے نشے میں دھت ہو کر غیر آئینی کام کرنے والی سرکار کو شاہین باغ نے آئین کا سبق پڑھایا۔شاہین باغ سے ملے یہ سبق برسراقتدار پارٹی اور میڈیا چینلز کی آنکھوں میں کرکری بنے ہوئے ہیںیہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے شاہین باغ کو نشانہ بنایا جاتا رہاہے۔ٹویٹر پر شاہین باغ کے خلاف ٹرینڈ چلتے ہیں ، شاہین باغ میں کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کو بڑھا چڑھا کر مرچ مسالہ کے ساتھ پیش کیاجاتاہے، لیکن تمام پروپیگنڈہ کے باوجود شاہین باغ نے آئینی دائرے سے باہر جاکر کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری طرف بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے بلڈوزر واپس لوٹنے کی جھنجھلاہٹ میں مسلم بستیوں پر غصہ نکالنے لگے۔ کپل مشرا نے ٹویٹ کیا کہ ’جہاں آئین نافذ نہ ہو ، جہاں قانون کی پاسداری نہ ہو ،جہاں پولیس کی نوانٹری ہو اور جہاں غیر قانونی اسلحہ اور غیر قانونی کاروبار اور غیر قانونی دراندازی کے اڈے ہو ں اسے کیا کہاجائے گا، یہ شاہین باغ،جہانگیرپوری ، سیما پوری،جیسے علاقوں کو اور کیا کہا جائے۔‘ہندوتووادیوں کے ذریعہ مسلم بستیوں کے بارے میں اکثر اس طرح کے بے تکے تبصرے کئے جاتے رہے ہیں۔ سیاست میں بلڈوزر کی ایجاد سے پہلے مسلم بستیوںکو ’منی پاکستان‘ بتانا عام بات تھی لیکن اب مسلم بستیوں کو غیر قانونی کاروبار اور دراندازوں کی پناہ گاہ بتاکر ایک نیا نریٹیوسیٹ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ اس سازش میں بی جے پی اور ان کی حامی تنظیموں سمیت میڈیا بھی شامل ہے۔شاہین باغ جیتا یا نہیں مگر اقتدار کا نشہ ضرور ہارا ہے۔جیسے وہ این آرسی مخالف تحریک کے دوران روز ہار رہاتھا ، شاہین باغ علامہ اقبال کے ’ شاہیں ‘کی ہی عکاسی کررہا ہے۔
توشاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں