ڈاکٹر برہمدیپ الونے
مغربی ایشیا کا بحران ایک پیچیدہ اور طویل المدتی مسئلہ ہے جس سے جنگ کا خوفناک خدشہ بھی مستقل رہتا ہے۔ اس کے مرکز میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان زمینی حقوق اور خود مختاری کے تنازع کا اہم رول ہے اور قیادت کی لڑائی نے اسے انتہائی خطرناک بنا دیا ہے۔ مغربی ایشیا میں ثقافتی تنوع سے بھرپور ملک لبنان حزب اللہ کے کنٹرول میں ہے اور اس کی جارحیت کے باعث یہ غزہ کے بعد اب اسرائیل کا نیا میدان جنگ ہے۔ لبنان کی سرحد شمال میں شام اور جنوب میں اسرائیل سے متصل ہے۔ مغرب میں بحیرہ روم ہے۔ لبنان کا جغرافیائی اور ثقافتی تنوع اسے ایک خاص اور اہم خطہ بناتا ہے لیکن ایران کی اقتصادی اور فوجی حمایت سے حزب اللہ،ملک کی سیاست اور معاشرے پر حاوی ہے۔
شمالی اسرائیل کی سرحد لبنان سے ملتی ہے، جہاں حزب اللہ کی سرگرمیوں کی وجہ سے سیکورٹی خدشات برقرار رہتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے یہ علاقہ تزویراتی لحاظ سے بہت اہم ہے۔ یہیں پر گولان کی پہاڑیاں ہیں، جس پر اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہاں سے شام کے کچھ حصے اور لبنان نظر آتا ہے۔پہاڑیوں اور وادیوں سے بھرا ہوا گیلیل علاقہ، اسرائیل کا تیسرا سب سے بڑا شہر، بندرگاہ اور صنعتی مرکز حیفہ ہے۔ لبنان کی سرحد سے متصل ان اسرائیلی علاقوں کو حزب اللہ نشانہ بناتی رہتی ہے۔ ان علاقوں میں حزب اللہ کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل نے جنگ کا سہارا لیا اور اس سے مغربی ایشیا میں کسی بڑی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیلی حملے عموماً لبنان کے جنوبی حصے اور خاص طور پر ان علاقوں پر مرکوز ہوتے ہیں جہاں حزب اللہ کی موجودگی ہوتی ہے۔ ان علاقوں میں حزب اللہ کا گڑھ جنوبی لبنان، لبنان اور اسرائیل کے درمیان واقع شبا فارمز جیسے کچھ اور علاقے بھی ہیں جہاں اسرائیل نے سرحد پر ڈرون اور فضائی حملے بھی کیے ہیں۔ لبنان میں بعض گروہوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعات گزشتہ پانچ دہائیوں سے جاری ہیں لیکن اس بار یہ بحران زیادہ بڑا ہے۔ حزب اللہ کو ایران نے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کر رکھا ہے۔
حزب اللہ کے پاس چھوٹے اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے راکٹ ہیں جنہیں وہ اسرائیل کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ ان میں کاتیوشا اور فجّر جیسے راکٹ شامل ہیں۔ تنظیم کے پاس توپ خانے کے ہتھیار بھی ہیں، جنہیں زمینی لڑائی میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حزب اللہ کے پاس اینٹی-ایئرکرافٹ میزائل ہیں جن سے وہ اسرائیلی طیاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ حزب اللہ کے پاس مواصلات اور نگرانی کے لیے جدید ترین تکنیکی آلات بھی ہیں، جو انہیں جنگ کے دوران فائدہ پہنچاتے ہیں۔ یہ ہتھیار حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف اپنی فوجی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
اسرائیل اپنی شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے جنوبی لبنان میں زمینی حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، اس کا یہ اقدام انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔ حزب اللہ نے تعلیم، صحت اور سماجی خدمات کے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے مقامی سطح پر اپنی خدمات کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی ہے۔ حزب اللہ اور دیگر لبنانی گروہوں کی جانب سے سخت مزاحمت اسرائیلی افواج کے لیے ایک سنگین چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔ مقامی شہریوں کی حمایت بھی انہیں تقویت دے سکتی ہے۔ زمینی حملہ سے بین الاقوامی سطح پر منفی ردعمل ہوسکتا ہے، جس سے اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت متاثر ہوسکتی ہے۔ بہت سے ممالک اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کرسکتے ہیں۔ تنازعات کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جس سے بین الاقوامی سطح پر عوامی مفادات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ لبنان میں زمینی تنازع پورے خطے میں عدم استحکام کو بڑھا سکتا ہے جس سے دوسرے ممالک بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر تنازع بڑھتا ہے تو یہ ایک طویل مدتی فوجی مہم میں تبدیل ہو سکتا ہے جس کے لیے اسرائیل کو مزید وسائل اور فوجوں کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ ان چیلنجز کی وجہ سے اسرائیل کو زمینی حملہ کرنے کے فیصلے پر احتیاط سے غور کرنا ہو گا۔
حزب اللہ حماس سے زیادہ منظم ہے۔ حزب اللہ اکثر گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپناتی ہے، جس میں چھوٹے، تیز حملے کیے جاتے ہیں۔ یہ حملے اچانک ہوتے ہیں اور مخالفین کو عجیب وغریب مقامات سے نشانہ بناتے ہیں۔ حزب اللہ کا ایک اہم حملہ راکٹ اور میزائلوں کا استعمال کرنا ہے۔ یہ اسرائیل کے اندر بڑے شہروں اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا ہے۔ حزب اللہ کبھی کبھی زمینی حملوں کا سہارا بھی لیتی ہے، جس میں وہ اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر حملہ کرتی ہے، خاص طور پر جنوبی لبنان میں۔ تنظیم نے بعض صورتوں میں خودکش حملوں کا بھی سہارا لیا ہے جہاں رکن خود کو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ کسی ہدف والے مقام پر جاکر حملہ کرتے ہیں۔ حزب اللہ اپنے ہتھیاروں اور فوجیوں کو محفوظ ٹھکانوں اور سرنگوں میں چھپاتی ہے جس سے انہیں دشمن کے حملوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان کے علاقوں میں سرنگوں کا ایک وسیع جال بچھا رکھا ہے۔ ان علاقوں میں اسرائیلی فوج کو زمینی حملہ کرنے پر بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حملوں کی منصوبہ بندی اور انجام دینے کے لیے وسیع انٹلیجنس کا استعمال کرتی ہے، جس میں مقامی نیٹ ورک اور کمیونٹی سپورٹ شامل ہوتاہے۔
ایران حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے اور اگر وہ لبنان میں سرگرم عمل ہوتا ہے تو یہ اسرائیل کے ساتھ تنازع کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔ ایران کی براہ راست مداخلت سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ علاقائی کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔ ایران کی فوجی مداخلت تنازع کو طول دے سکتی ہے جس سے امن قائم کرنا مزید مشکل ہوجائے گا۔ لبنان میں جنگ کے بڑھنے سے علاقائی اور عالمی استحکام کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ اسے ہر حال میں روکا جائے۔
[email protected]