خواجہ عبدالمنتقم
سفارتکاری سے ممالک کے درمیان تنازعات پرامن طریقے سے حل ہوتے ہیں، جس سے جنگ کے امکانات کم ہو جاتے ہیںمگرسفارت کاری میں منافقت ایک دو دھاری تلوار ہے جوبعض اوقات مفید ثابت ہو سکتی ہے اور بعض اوقات نقصان دہ۔ پرامن تعلقات سے تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ ملتا ہے، جو اقتصادی ترقی کا باعث بنتی ہے۔سفارتکاری کے ذریعے چھوٹے بڑے مسائل بات چیت کے ذریعے فوری طور پر حل کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ فریق ثانی کی سوچ مثبت ہو اور وہ بھی صدق دلی سے مسائل کے حل کا خواہاں ہو۔محض مطلب براری،موقع شناسی ،بین الاقوامی قانون اور آداب سفارت کی خلاف ورزی کر کے اور نام نہاد جوڑ توڑ سے کسی مسئلہ کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔
کیااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کی آفاقیت کو تسلیم کرتے ہوئے متمدن اقوام کے مابین ہم کلامی کے لیے جو عالمی ایجنڈا اس غرض سے منظور کیا تھا کہ اس سے اقوام عالم کو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر اور دوستانہ تعلقات رکھنے میں مدد ملے اور وہ ایک دوسرے کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو ٹھیک سے سمجھ سکیں اور اس سے ان کے دوستانہ تعلقات میں مزید استحکام آئے، اگر ان کے درمیان کوئی تنازعات ہیں تو ان کا بھی باہمی میل جول اور گفت وشنید کے ذریعہ حل نکالا جائے،محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ اس ایجنڈے میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہمتمدن اقوام کے مابین ہم کلامی ایک ایسا طریق کار ہے جس کی بنیاد اجتماعیت اور شراکت پر ہے اور اس سے مختلف تہذیبوں کی نئی نئی باتوں واقدار کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور ان کو امتیاز وتفریق کی بنیاد نہ بناکر باہمی میل ملاپ اور ہم آہنگی کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے اوراقوام کے مابین ہم کلامی ایک ایسا طریق کار ہے جس کا مقصد انسانی روابط میں شراکت، نصفت، مساوات، انصاف اور صبروتحمل کو فروغ دینا تھااور مختلف تہذیبوں کے مابین روابط کے ذریعہ باہمی مفاہمت اور احترام میں اضافہ کرناتھا اور دنیا کی تمام تہذیبوں میں جو بھی خوبیاں اور حکیمانہ باتیں ہوں ان کو سراہنا تھا۔ اس کے علاوہ مختلف تہذیبوں میں جو چیزیں مشترکہ ہوں ان کی پہچان کرنا اور انھیں فروغ دینا بھی شامل تھاتاکہ مختلف میدانوں میں مشترکہ اقدار، عالمی انسانی حقوق اور انسانی معاشرے کو ملی کامیابیوں کو جو بھی خطرہ ہو اس سے اجتماعی طور پر نمٹا جاسکے مگر جیسا کہ ہم نے اوپر قلم بندکیا،یہ ایجنڈا مخص ایک بے سود کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔
کیا اقوام عالم ان حقائق سے باخبر نہیں کہ جنگوں میں لاکھوں لوگ ہلاک یا زخمی ہو جاتے ہیں، جن میں عام شہری بھی شامل ہوتے ہیں۔ جنگ سے ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے، صنعتیں تباہ ہو جاتی ہیں اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔ سڑکیں، پل، اسپتال، اسکول اور دیگر عمارتیں تباہ ہو جاتی ہیں، جس سے عوامی سہولیات ختم ہو جاتی ہیں۔ جنگ سے بچے، عورتیں اور مرد شدید ذہنی دباؤ، صدمے اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنگ کے باعث لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے پناہ گزینوں کا بحران جنم لیتا ہے۔اس کی تازہ مثال غزہ اور روس یوکرین ہیں۔کس کو کیا ملا سوائے مالی، جانی و نفسیاتی نقصان کے ۔ یہ ان گمراہ اور جنونی لوگو ںکے لیے اطمینان قلب کا ذریعہ ضرور ہوسکتا ہے جوکسی دوسرے فرقے یا سیاسی حریفوں کی لاشیں دیکھ کر خوش ہو تے ہیں۔کیا جنگ میں شریک ممالک جنگ کے ان نقصانات سے واقف نہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں۔ یہ آداب سفارت ور انسانی حقوق کی کھلم کھلاخلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟
دسمبر 2013میں امریکہ میں تعینات انڈین قونصلیٹ دیویانی کو نہ صرف حراست میں رکھا گیا بلکہ برہنہ کرکے ان کی تلاشی بھی لی گئی اور ساتھ میں انھیں ہتھکڑیاں بھی پہنائی گئیں جیسے کہ انھوں نے کوئی انتہائی شدید تعزیری جرم کیا ہو۔ ان کا مبینہ جرم محض یہ تھا کہ انھوں نے اپنی خادمہ کو امریکی قانون کے مطابق کم از کم مزدوری کی ادائیگی نہیں کی تھی اور یہ کہ صحیح ادائیگی کی بابت غلط بیانی کرکے اپنی خادمہ کے لیے ویزا حاصل کیا۔ اس معاملے نے کافی طول پکڑا اور یہاں تک کہ نئی دہلی میں تعینات امریکی سفارت کاروں سے سفارتی انتقام تک لینے کی نوبت آپہنچی جبکہ ہم سب اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ سفارتی آداب کی رو سے اس طرح کے تنازعات میں اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا جاتا مگر کبھی کبھی عوام کی اور خاص کر وہ بھی جمہوری ملک میں خوشنودی کے لیے بادل ناخواستہ اس طرح کا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ نیوزی لینڈ میں ہمارے ہائی کمشنر روی تھاپرکی اہلیہ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے اپنے گھریلو خدمت گار پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ پرتشدد رویہ اختیار کیا۔ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر تھاپر کو ہندوستان بلالیا گیا۔مگر مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہورہاہے اس سے ما سوائے چند ممالک کے سب نے اپنی آنکھیں موند رکھی ہیں۔
دریں صورت صرف سفارت کاروں کا ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اس آئینی ذمہ داری کو صدق دلی سے نبھائیں تاکہ دنیا میں امن وامان قائم رہے اور ناپسندیدہ واقعات پیش نہ آئیں۔کبھی کبھی مذاکرات کے لیے مصلحت اور دوہرے معیار کی ضرورت پڑتی ہے اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کبھی کبھی منافقت ان مفادات کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے۔بعض اوقات ممالک منافقانہ رویہ اختیارکرتے ہوئے مزیدمشاورت کے لیے وقت لیتے رہتے ہیں۔ میڈیا کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ منافقت سے کام نہ لے اور سچائی کوسامنے لائے۔سرد جنگ کے دوران غیر جانبدار ممالک نے اکثر منافقت سے کام لیتے ہوئے بڑی طاقتوں سے مدد حاصل کی۔دنیا کے مسائل ایک منافقانہ (hypocritic) دنیا میں کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں، لیکن چند نکات کی روشنی میں ہم اس مسئلے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا میں موجود بڑے مسائل جیسے کہ غربت، جنگیں، ماحولیاتی تباہی، ناانصافی، اور بدعنوانی اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک ہم ان مسائل کے پیچھے موجود منافقت کو پہچان کر اس کا خاتمہ نہ کریں۔
مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے نیت کا درست ہونا ضروری ہے۔ اگر حکومتیں اور ادارے صرف دکھاوا کرتے رہیں اور اصل میں عوام کی خدمت کے بجائے اپنے مفادات کو ترجیح دیں، تو کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔عالمی سطح پر بھی ممالک ایک دوسرے کی مدد تو کرتے ہیں، لیکن اکثر اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ جب تک یہ رویہ ختم نہیں ہوتا، عالمی سطح پر امن ممکن نہیں۔اس ضمن میںمیڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ اگر میڈیا سچ کو چھپائے اور جھوٹ کو فروغ دے، تو یہ منافقت ہے۔ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے کسی بھی حصے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی، خواہ وہ عام آدمی کے ساتھ ہو یا دیگران کے ، ملزموں کے ساتھ، اس کو اجاگر کرے۔ دنیا کے تمام ممالک میں ہی میڈیا سیاست دانوں اور ارباب حکومت سے متعلق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کو عوام سامنے لاتا رہا ہے۔باقی ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]