جنگ : خطرناک نفسیات اور افکار و خیالات

0

محمد حنیف خان

جنگیں اپنے جلو میں ہمیشہ دکھ، درد، تکلیف اور برسوں کیا پوری زندگی کی محرومیاں لے کر آتی ہیں۔اس لیے جنگ ہمیشہ آخری متبادل ہوتا ہے لیکن جنگ کے بھی اپنے اصول و ضوابط ہیں۔ہندوستان نے مجبوری میں پاکستان کے خلاف جنگ شروع کی تھی کیونکہ معصوم افراد کو نہ صرف نشانہ بنایا گیا تھا بلکہ اس سے پوری وادی میں خوف و ہراس کا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ہندوستان نے شروع میں ہی اعلان کیا تھا کہ اس بار اس پرکاری ضرب لگائی جائے گی اور اس نے ایسا کیا بھی،جو وقت کی ضرورت تھی۔لیکن اس کے برخلاف جنگ کی نفسیات اور عوامی افکار و خیالات میں اس جنگ میں جو بات دیکھنے کو ملی ہے، وہ حد درجہ خطرناک اور تشویشناک ہے۔

پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی میں احزاب اختلاف سمیت پورا ملک حکومت کے ساتھ تھا،کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے یہ کہا ہو کہ اس کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔یہ اور بات ہے کہ پہلگام میں حملے سے متعلق حکومت سے سوالات کیے گئے،اس کے اسباب و وجوہات پر حکومت کو گھیرنے اور اس کو جواب دہ بنانے کی کوشش کی گئی جو جمہوریت کا طرۂ امتیاز ہے۔جمہوریت کی یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ اس میں حکومت عوام کی ہوتی ہے اور حاکم برائے توضیع قانون و نفاذ احکام ہوتے ہیں،اسی لیے وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔اس کے باوجود ملک میں کئی مقامات پر ایسے افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کیے جانے کی اطلاعات ہیں،جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اب حکومتیں سوال نہیں پسند کرتی ہیں۔اس کی بھی ایک وجہ ہے چونکہ جمہوری حکومتیں بھی اب دھیرے دھیرے آمرانہ ہوتی جا رہی ہیں اور یہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا میں بہت سی ایسی حکومتیں ہیں جو اسی راہ پر گامزن ہیں۔

دو برس قبل سوئڈش کی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ وی ڈی ایم کی رپورٹ میںکہا گیا تھا کہ ’’ہندوستان الیکٹورل آٹوکریسی‘‘ یعنی انتخابی آمریت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال2014میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کی جیت اور ہندو نیشنلسٹ ایجنڈہ آگے بڑھانے کے بعد سے ہی زیادہ تر گراوٹ آئی، 2020کے آخر تک ہندوستان کی جمہوریت کا نمبر 0.34رہا جبکہ 2013میں یہ اپنی انتہا پر 0.57 تھا۔ اس طرح لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں 23فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ رپورٹ میں تفصیل سے اس کے اسباب و عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے،جس میں میڈیا کا سنسرشپ و جانبداری، سول سوسائٹی کا استحصال،الیکشن کمیشن کی خودمختاریت میں کمی، اکیڈمک اور مذہبی آزادی کو بطور سبب ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے یواے پی اے کے استعمال کی کثرت،ملک سے غداری کے مقدمات کو بھی اولیت دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے تقریباً 7000شہریوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ قائم کیا جا چکا ہے۔حالیہ مقدمات بھی اسی کی ایک کڑی ہیں۔

اس جنگ میں ملک جہاں دہشت گردی سے لڑ رہا تھا، وہیں خود یہاں کی اکثریت ملک کی اقلیت کے خلاف ایک محاذ کھولے ہوئی تھی۔کوئی بھی ایک ایسا ہندوستانی نہیں تھا جس نے پہلگام میں ہوئی حملے کی مذمت نہ کی ہو، اس کے باوجود جس طرح سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی،تعصب کا اظہار ہی نہیں کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی،انہیں زد و کوب کیا گیا، اس نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر اکثریتی عوام کی اپنے ہی ملک کے باشندوں کے خلاف یہ نفسیات کیسے تشکیل پائی۔

یہ وہ بیج ہے جو برسوں سے بویاجارہا تھا،جس کے سہارے انتخابی کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی،اسی کا نتیجہ تھا کہ ملک کے حالت جنگ میں ہونے کے باوجود اپنے ہی شہریوں کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی۔ اکثریتی عوام کی ایسی نفسیات بن چکی ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت نہ صرف ملک دشمن ہے بلکہ اس ملک میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ان کو محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جو بھی ہورہا ہے، اس کے لیے یہاں کی یہ سب سے بڑی اقلیت ہی ذمہ دار ہے۔ایسی ذہنیت بنانے میں ووٹوں کا پولرائزیشن کرنے والوں کے ساتھ ہی وہ میڈیا ذمہ دارہے جس نے اکثریت کو اکسایا ہے۔جس وقت پہلگام میںحملہ ہوا تو سب سے پہلا بیانیہ جو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا، وہ تھا ’’نام پوچھ کر گولی ماری گئی‘‘۔یہ بات کتنی سچی ہے اس کا اندازہ سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر گردش کرنے والی ان ویڈیوز سے لگایا جاسکتا ہے جس میں متاثرین نے کشمیریوں کے جذبہ تعاون پر کھل کر گفتگو کی ہے۔حد تو اس وقت ہوگئی جب ایک فوجی کی بیوہ نے کہا کہ کشمیریوں اور ملک کے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بجائے دہشت گردوں سے بدلہ لیا جانا چاہیے تاکہ انصاف مل سکے۔سچی بات تو یہ تھی کہ خاتون کی اس بات پر توجہ دی جاتی مگر نفرت کرنے والوں نے جس طرح سے ان کو نشانہ بنایا اور جس طرح کی باتیں ان کے حوالے سے کی ہیں، وہ حد درجہ شرمناک ہیں۔اس ٹرولنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثریتی طبقے کے وہ افراد جو تعصب اور نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، انہیں کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا،ان کی نظر میں ملک کا ہر مسلمان غدار ہے اورکسی بھی واقعہ کے لیے ذمہ دار ہے۔جبکہ حقیقت پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ اپنے مفاد کے لیے کیا گیا ہے جس میں یکطرفہ جرنلزم سب سے زیادہ ذمہ دار ہے۔

اس جنگ کی رپورٹنگ اور جنگ سے قبل جس طرح کے جرنلزم کا یہاں کے میڈیا نے مظاہرہ کیا ہے، وہ حد درجہ تشویشناک ہے۔جرنلزم کا ایک مسلمہ اصول غیرجانبداری ہے،لیکن جنگ کے آغاز سے قبل یہاں کے ٹیلی ویژن پر جس طرح کے مباحثے ہوئے اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس حملے کو مسلمانوں کے خلاف فضا سازی کے لیے استعمال کیا جا رہاہے۔مین اسٹریم کا کوئی ایک بھی ایسا چینل نہیں ہے جس نے پہلگام میں ہوئے حملوں سے متعلق حکومت سے کسی طرح کا سوال کرنے کی جرأت کی ہو،حملہ آورکہاں سے آئے اور کہاں گئے، ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں، جیسے سوالات کوئی بھی اینکر اپنے لب پر نہیں لاسکا لیکن ’’نام پوچھ کر مارا‘‘کی رٹ ہر چینل پر تھی،جس کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف فضا ہموار کی گئی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف ملک پاکستان سے لڑ رہا تھا تو دوسری طرف یہاں کی اکثریت مسلمانوں سے حالت جنگ میں تھی۔کتنے ایسے غریب اور مزدور تھے جنہیں نام پوچھ کر کام سے نکال دیا گیا،بستیوں میں داخل ہونے سے روک دیا گیا،بازاروں میں انہیں زد وکوب کیا گیا۔اہم بات یہ رہی کہ مین اسٹریم کے میڈیا نے ان واقعات کی رپورٹنگ بالکل نہیں کی،یہ اطلاعات ویڈیو کی صورت میں سوشل میڈیا پر عام ہوئیں۔’’نیوز اور ویوز‘‘کے سلسلے میں ہندوستان میں ایکس اور فیس بک اہم ذرائع ہیں،ان دونوں میں سے کسی پر بھی آپ چلے جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہے،یہ نفرت کسی اور سے نہیں بلکہ یہیں کے مسلمانوں سے کی جا رہی ہے۔مدھیہ پردیش کا ایک ریاستی وزیر کرنل صوفیہ کے خلاف جس طرح کی زبان کا استعمال کرتا ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ زہر کہاں تک اور کس حد تک سرایت کرچکا ہے۔

یہ یاد رہنا چاہیے کہ یہ ملک بہت عظیم ہے،اس کا تنوع ہی اس کی خوبصورتی ہے،جسے ووٹ اور ٹی آر پی کے لالچی تباہ کر رہے ہیں۔یہ ملک ہر ہندوستانی کا ہے خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو،اس جنگ میں اس کا ثبوت بھی یہاں کے باشندوں نے دے دیا ہے۔لیکن اگر کوئی نہیں سدھرا ہے تو وہ ہیں وہ نفرتی افراد جن کے ذہن اسلاموفوبیا کا شکار ہیں،جس کا علاج بہت ضروری ہے،یہ اور بات ہے کہ اب اس بات کی بھی کوششیں کی جارہی ہیں کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ہندوستان میں اسلاموفوبیا نہیں ہے مگریہ بات حقیقت سے بہت بعید ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS