ہندوستان میں جمہوریت اور آئین کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ جاری ہے اور حالیہ وقف ترمیمی بل اس سازش کا تازہ ترین ہتھیار ہے۔ یہ بل نہ صرف مسلمانوں کے آئینی حقوق پر ایک ظالمانہ حملہ ہے بلکہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو سیاسی طور پر کچلنے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کھلی سازش ہے۔ کل 27جنوری 2025کو پیر کے روز مشترکہ پارلیمانی کمیٹی(جے پی سی)نے اس بل میں حکومت کی پیش کردہ ترامیم کو منظوری دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہاں جمہوریت کا صرف ناٹک رچایا جا رہا ہے۔ یہ حرکت دراصل فاشزم کی عکاسی کرتی ہے جو ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنے کی سازش ہے۔
جے پی سی نے حالیہ وقف ترمیمی بل میں حکومت کی پیش کردہ 14 ترامیم کو منظوری دے دی جب کہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 44 ترامیم کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا۔ یہ قدم نہ صرف اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہے بلکہ ایک واضح اشارہ ہے کہ حکومت اقلیتوں کو کچلنے اور اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
جے پی سی میں اپوزیشن کے صرف 10 ارکان شامل تھے، جب کہ این ڈی اے کے ارکان کی تعداد 16 تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 572 تجاویز میں سے اپوزیشن کی ایک بھی تجویز کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے جمہوری عمل کو محض دکھاوا بنا کر رکھ دیا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے تمام ترامیم کو جلد بازی میں منظور کرایا اور اپوزیشن کو بحث کا وقت تک نہ دیا۔ یہ رویہ جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کسی بھی اختلافی آواز کو دبانے کیلئے تیار ہے۔
ترمیمی بل کے تحت وقف بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ اس میں غیر مسلم ارکان کی بھرتی اور وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر(سی ای او) غیر مسلم مقرر کرنے کی شق شامل ہے۔ مزید یہ کہ وقف املاک پر مسلمانوں کے دعوے کو غیر قانونی قرار دینے اور ان کے انتظام کو سرکاری افسران کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں تقریباً 6 لاکھ 13 ہزار وقف جائیدادیں ہیں جن کی کل مالیت کھربوں روپے ہے۔ ان جائیدادوں کا تحفظ مسلمانوں کی سماجی، مذہبی اور ثقافتی شناخت کا اہم حصہ ہے، لیکن اس بل کے ذریعے انہیں ان سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کی اس سازش کے پیچھے دراصل یہ ایجنڈا ہے کہ اقلیتوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کرکے اکثریتی طبقے کے حق میں جھکائو ظاہر کیا جائے۔ اس وقت دہلی اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور یہ بل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی چال معلوم ہوتی ہے۔ اپوزیشن کے ارکان بارہا اس بات پر زور دیتے رہے کہ اس مسئلے پر مزید بحث ضروری ہے، لیکن ان کی آواز کو مکمل طور پر دبایا گیا۔
جے پی سی کی تشکیل لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 31 ارکان پر مشتمل تھی جن میں سے 10 اپوزیشن کے ارکان تھے۔ اپوزیشن نے اس بل پر 44 ترامیم تجویز کیں لیکن کمیٹی نے ایک بھی تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس این ڈی اے کی جانب سے پیش کی گئی 23 ترامیم میں سے 14 کو قبول کر لیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے جمہوریت کا صرف ناٹک کیا اور اپنی من مانی کو ترجیح دی۔
اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے مذہبی اداروں، مساجد، مزاروں، قبرستانوں اور دیگر وقف جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 سے 30 کے تحت فراہم کردہ مذہبی آزادی کے حق پر براہ راست حملہ ہے۔
ملک کی تقریباً تمام بڑی مسلم تنظیموں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ ملک بھر میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اس بل کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
یہ مسئلہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اصولوں کا ہے۔ اگر آج مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے تو کل دیگر اقلیتوں کی باری ہوگی۔ حکومت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہندوستان میں فسطائیت کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ اس بل کو قانون بننے سے روکنا ہندوستان کے آئینی مستقبل کیلئے نہایت ضروری ہے۔