شاہد زبیری
وقف ترمیمی بل کو لے کر بنائی گئی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی (JPC)کی ایک سے زائد میٹنگیں ہو چکی ہیں، ان میٹنگوں میں حکمراں این ڈی اے کی مودی حکومت کے نمائندوں کے رویہ سے لگتا ہے کہ مودی کی سربراہی والی این ڈی اے سرکار اس بل کو مسلمانوں پر تھوپنا چاہتی ہے ۔ فرقہ پرست تنظیمیں اس بل کو لے کر پہلے دن سے حکومت کی تائید اور حمایت کرتی آرہی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بارکوڈ کے اسکین کیے جانے کو لے کر بھی ان تنظیموں نے جس طرح مسلمانو ں کے خلاف مورچہ کھولا ہے اور جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو اپنی آراء بھیجی ہیںہم نے اس پر گزشتہ کالم میں سوال اٹھایاتھا کہ اس پر آخر اکثریتی طبقہ کی آراء کا اخلاقی اور آئینی جواز کیا ہے ؟ رائے ان سے لی جانی چاہیے تھی جن کے آباء و اجداد نے یہ جائیدادیں اور زمینیں مسلمانوں کی فلاح وبہبود کیلئے اللہ کے نام وقف کی تھیں، لیکن کہاجارہا ہے کہ رائے سب سے لی جا سکتی ہے ،ظاہر ہے جب رائے دینے کا حق سب کو دے دیا گیا تو پھر اقلیت کی آراء اکثریت کی آراء کے آگے کہاں ٹک پائیں گی، جبکہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی تنظیم راشٹریہ مسلم منچ کے علاوہ آل انڈیا صوفی سجادہ نشین کونسل اور این جی او بھارت فرسٹ جیسی سنگھ اور بی جے پی کی حمایت کرنے والی تنظیمیں جے پی سی کے سامنے پیش ہو کرصدفیصد بل کی حمایت کر چکی ہیں۔
آل انڈیا پسماندہ مسلم محاذ بھی بل کی حمایت میں ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ وقف کمیٹیوں میں غیر مسلموں کی نمائندگی کی وکالت کرتے ہوئے ایک مین اسٹریم چینل پر مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینرمحمد افضال کہتے ہیں کہ ہندئووں نے درگاہوں کے نام پر گائوں کے گائوں وقف کررکھے ہیںتو ان کو وقف کمیٹیوں میںکیوں نہ شامل کیا جائے؟اس طرح کی بے تکی باتوں کا کوئی کیا جواب دے ۔سنگھ اور بی جے پی نے ایسی کچھ اور جیبی تنظیمیں بنا رکھی ہیں جن کا استعمال وہ ضرورت پڑنے پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کر تی رہی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جو مسلمانوں کا نمائندہ بورڈ اور مؤقرادارہ ہے اس کو بھی جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اپنا مئوقف رکھنے کا موقع ملا اس نے بل کے خلاف اپنے دلائل پیش کیے اور اس کی طرف سے چار بڑے اعتراضات وقف ترمیمی بل کے خلاف پیش کئے گئے جن میں وقف بائی یوزر کے تحت جائیدادوں کی وقف حیثیت کا ختم کیا جا نا، وقف جائیداد پر 12سال سے زائد عرصہ سے قابض شخص کے حق کو تسلیم کیا جانا ،وقت ٹریبیونل کے اختیارات کا ڈی ایم کو دیا جا نا ،وقف کمیٹیوں میں غیر مسلموں کی شمولیت وغیرہ ان سب پر تفصیل کے ساتھ اور مدلل طریقہ سے وقف بورڈ نے اپنے اعتراضات کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے جو 211 صفحات پر مبنی ہے۔چانکیہ یو نیورسٹی پٹنہ کے وائس چانسلر اور ممتاز ماہر قانون فیضان مصطفی کو بھی جے پی سی نے اپنی بات رکھنے کا موقع دیا ۔انہوں نے بھی اس بل کی خامیاں اجاگرکیں اور ڈی ایم کو اختیارات دیے جا نے کو غلط قررا دیا اور اس سے پیدا ہو نے والی پیچیدگیوں کی طرف توجہ دلا ئی ۔نہیں معلوم جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی اس پر اور کتنی میٹنگیں کرے گی ۔ان ساری تگ و دو کا کیا نتیجہ نکلے گا قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ کمیٹی اکثریت کی آراء اور تجاویز کی روشنی ہی میں اپنی سفارشات پیش کرے گی ۔
جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 15ستمبر تک اس کو ای میل اور خطوط کی شکل میں جو تجاویز ملی ہیں ان کی تعداد ایک کروڑ 20لاکھ ہے جبکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دعویٰ ہے کہ اس کی اپیل پر تین کروڑ 70لاکھ کے قریب مسلمانوں نے اپنی آراء جے پی سی کو ای میل کی ہیں ۔غور طلب ہے کہ سنگھ پریوار اور وشو ہندو پریشد و دیگر ہندو تنظیموں کی طرف سے بھی کثیر تعداد میں آراء کمیٹی کو ای میل کی گئی ہیں، اس کیلئے ان تنظیموںنے کیمپ لگائے تھے اور ان کیمپوں کے باہر لمبی لمبی قطاریں لکھی گئی تھیں ایسا ہی کچھ نظارہ گنیش اتسو پنڈالوں کے باہر تھا جہاں بار کوڈ اسکین کر کے لوگ اپنی آراء ای میل کررہے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں ای میل کئے جانے پر جے پی سی کہہ رہی ہے اس کو صرف ایک کروڑ 30لاکھ آراء اور تجاویز موصول ہوئی ہیں ۔
کمیٹی نے اس کی وضاحت بھی پیش کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے ان باکس میں زیادہ سے زیادہ 3343404 ای میل کی گنجائش ہے جبکہ 12801ای میلس اٹیچمینٹ کے ساتھ موصول ہوئے ہیں اور 75650ای میلس اسپیم فولڈرس چلے گئے۔ کمیٹی کو تحریری خطوط کی شکل میں تقریباً30لاکھ تجاویز موصول ہوئی ہیں اگر ایسا تھا تو پھر جے پی سی نے تجاویز کی ترسیل کا اذنِ عام کیوں کیا تھا ؟باقی جو تجاویز جے پی سی کو ای میل کی گئی ہیں وہ کس کھاتہ میں جا ئیں گی؟جے پی سی اب وقف ترمیمی بل پر پانچ ریاستوں میں اجلاس منعقد کرے گی، 26ستمبر سے یکم اکتوبر تک ہونے والے ان اجلاس میں وقف بورڈوں کے نمائندے ،سرکاری اہلکار ،بار کونسل،،وکلاء متولیان اور قانونی پیشہ ور ان اجلاس میں شرکت کریں گے وقف ترمیمی بل میں تجویز کردہ اصلاحات ریاستوں میں وقف املاک کے انتظام پر کیسے اثر انداز ہو سکتی ہیں اس پر غور کیا جا ئے گا ۔جن پانچ ریاستوں میں میں یہ اجلاس کیے جا ئیں گے ان میں مہاراشٹر ،گجرات ،آندھرا پردیش ،تلنگانہ اور چھتیس گڑھ بتائے گئے ہیں۔یکم اکتوبر کو بنگلو رو اور رناٹک کا نمبر آئے گا۔ ان اجلاس کا مقصد ان ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی کمیونٹی کے نمائندوں کی رائے جمع کرنا ہے تاکہ وقف ایکٹ میں اصلاحات کیلئے ایک جامع نقطئہ نظر کو یقینی بنا یا جا سکے نہیں کہا جاسکتا کہ جے پی سی کی ان تمام کوششوں اور تگ ودو سے مسلم اوقاف محفوظ رہ پائیں گے کہ نہیں اس لیے کہ واقف کاروں کے مطابق حکومت جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کو جو بل بھیجتی ہے اس پر کمیٹی جو بھی سفارشات پیش کرتی ہے وہ بل کے حق میں ہو یا خلاف حکومت ان سفا رشات کو ماننے کیلئے پابند نہیں یہ منڈیٹری ہوتا ہے جو حکومت کی صوابدید اور اس کی نیت پر منحصر کرتا ہے۔
وقف ترمیمی بل پرجو آثار سامنے آرہے ہیں ان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ حکومت آئین میں دیے گئے اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری کا خیال کرے گی اور ان کی منشاء اور ان کے مطالبات کو اہمیت دے گی اس کی ایک بانگی وزیر داخلہ کے بیان سے سامنے آچکی ہے ۔ابھی یہ مسئلہ جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے زیر غور ہے لیکن وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنا بیان داغ دیا اور صاف کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 جو وقف جائیدادوں کے انتظامات اور تحفظ کے علاوہ اس کے غلط استعمال پر روک لگانے کیلئے ہے حکومت اس کو پارلیمنٹ میں پاس کرائے گی ۔ جب وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں صاف کردیا ہے کہ حکومت اس وقف ترمیمی بل کو پاس کرائے گی تو پھر جے پی سی کا کیا جواز ر ہ جا تا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر داخلہ کے متنازع بیان پر ملّی رہنمائوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور حکومت کی نیت پر سوال کھڑے کیے ہیں، لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ۔ بل کی حمایت اور مخالفت میں جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کے اپوزیشن کے نمائندوں اور حکمراں طبقہ سے تعلق رکھنے والے نمائندوں کے مابین نوک جھونک اور تکرار ہو چکی ہے۔وزیر داخلہ کے بیان کے علاوہ 21ستمبر کو آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی تنظیم وشو ہندو پریشد کا ایک بیان سامنے آیا کہ وشو ہندو پریشد بل کی حمایت میں ملک بھر میں مہم چلائے گی غیر اعلانیہ مہم تو وشو ہندو پریشدپہلے سے ہی چلا رہی ہے اب اس نئی مہم کی ضرورت کیوں آن پڑی ۔ گودی میڈیا دن رات وقف بورڈ کو ختم کر نے کی مہم چلا ہی رہا ہے ۔ ہماچل میں بھی وشو ہندو پریشد ہندو جاگرن منچ اور پس پردہ بی جے پی کی طرف سے ہماچل وقف بورڈ کو ختم کیے جا نے کا مطالبہ شروع کردیا گیا ہے۔ حکومت کی شہ پر ایسا ہی مطالبہ ملک کی دوسری ریاستوں کی ہندو تنظیموں کی طرف سے بھی کیا جا سکتا ہے۔اب اپوزیشن جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اس کے آگے ٹک پاتی ہیں اور مسلمانوں کو انصاف دلا پا تی ہیں اورموجود حکومت کی بیساکھیاں کہی جا نے والی نام نہاد سیکولر جماعتیں اور لیڈر جیسے جے ڈی یو بہار کے نتیش کمار ،آندھرا پردیش کے تیلگو دیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو اور مرکزی وزیرو لوکدل کے قائد جینت چودھری وقف ترمیمی بل پر مسلمانوں کے موقف کی وکالت کرتے ہیں کہ گونگے رہتے ہیں جیساکہ ہیں۔جملہ مسلمانوں اور ملّی تنظیموں نے مکاتب فکر اور مسالک کے امتیاز کے بغیر اس وقف ترمیمی بل کے خلاف اپنا موقف بلا جھجھک پیش کردیا ہے اور صاف کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو یہ بل قطعاً منظور نہیں ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والے حالات کا مسلمان اور ملّی تنظیمیں کیسے مقابلہ کر پاتی ہیں۔
[email protected]
وقف ترمیمی بل: مسلمانوں پر کیوں تھوپا جارہا ہے ؟ : شاہد زبیری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS