وقف ترمیمی بل :اپوزیشن اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی آزمائش ؟

0

شاہد زبیری

حکومت نے اپنے طے شدہ شیڈیول کے مطابق پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے آخری دن13فروری کو جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی رپوٹ پیش کردی اور رپورٹ کو لے کر لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں جگہ اپوزیشن لیڈروں نے ہنگا مہ بھی کیا اور حکمراں جماعت کی ہٹ دھرمی اور غیر جمہوری روش کو دیکھتے ہوئے لوک سبھا سے اپوزیشن نے واک آئوٹ کر کے وقف ترمیمی بل کی موجودہ شکل کوتسلیم کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں زیادہ ہنگا مہ اپوزیشن لیڈروں کے اختلافی نوٹس کو رپورٹ میں شامل نہ کئے جا نے پر دیکھنے کو ملا، جس پر حکمراں حکو مت نے اختلافی نوٹس کو رپورٹ میں شامل کئے جا نے پر رضامندی بھی ظاہر کردی،لیکن ان اختلافی نوٹس سے فی نفسہ وقف ترمیمی بل میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہونے والی اور ایسا کچھ نہیں ہونے والا جس سے مسلمان راحت کی سانس لے سکیں۔ وقف ترمیمی بل کی نوعیت جوں کی توں رہے گی۔ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے دبائو یا مسلمانوں کی خوشنودی کیلئے نہیں بلکہ نتیش کمار اور چندرا با بو نائیڈو جیسے این ڈی اے میں شامل جماعتوں کے لیڈران کی چمڑی بچا نے کیلئے وقف ترمیمی بل کو جوائنٹ پارلیما نی کمیٹی کے سپرد کئے جا نے کا ڈرامہ رچا گیا تھا۔ اس نام نہاد کمیٹی کے روبرو اسٹیک ہولڈرس خاص طور پر مسلم جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے جو بنیادی اعتراضا ت اٹھا ئے گئے اور جو تجاوزیز پیش کی گئیں اور عام مسلمانوں کی طرف سے کمیٹی کو 5کروڑ ای میل بھی کئے گئے لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ثابت ہورہے ہیں، کیونکہ کمیٹی کے چیئر مین جگدمبیکاپال نے جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگوں میں کسی کی بات نہیں سنی اور کئی مرتبہ اپوزیشن لیڈروں کو میٹنگوں سے بائیکاٹ بھی کیا، اس کے علاوہ کمیٹی کے چیئر مین نے تمام اپوزیشن کے لیڈروں کو ایک دن کیلئے ان کو سسپینڈ بھی کیا اوربعد میں وقف ترمیمی بل پر کئے گئے اعتراضات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ حکومت کو سونپ دی اور حکومت نے پارلیمانی اجلاس کے آخری دن یہ رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کردی۔ خاص بات یہ رہی کہ اپوزیشن جماعتوں کے مسلم لیڈران نے جہاں موجودہ شکل میں پیش کئے گئے و قف ترمیمی بل کو سرے سے مسترد کیا اور اور اس کو آئین میں دئے گئے اقلیتوں کے مذہبی حقوق پر حملہ قرار دیا اور اس بل کو وقف بچانے والا نہیں بلکہ وقف ہڑپنے والا بتا یا، وہیں اپوزیشن کے غیر مسلم لیڈروں کا زیادہ وقت اختلافی نوٹس کو رپوٹ میں شامل نہ کئے جا نے کی مخالفت میں گذرا ۔

اپوزیشن کے کسی غیر مسلم ایم پی کا کوئی بیان وقف ترمیمی بل کے ان خطرات اور خدشات کے بارے میں ہماری سماعتوں سے نہیں گذراجس پر مسلمان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹس اور تجاویز میں ان خطرات اورخدشات کو اجاگر کیا ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ10مارچ سے شروع ہونے والے پارلیمانی اجلاس میں کیا ہوتا ہے بظاہر تو نوشتۂ دیوار یہی ہے کہ تین طلاق اور دیگر مسلم مخالف بلوں کی طرح مودی سرکار وقف ترمیمی بل بھی دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں آسانی سے پاس کرا لے گی اور بل قانون بن جائے گااور اپوزیشن لیڈر زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے وہ پارلیمنٹ سے واک آئوٹ کر جائیں گے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔اس وقف بل پر 13فروری کو ہونے والی بحث کے دوران اپوزیشن لیڈروں کی اس مسئلہ پر حیثیت مشکوک کر نے کیلئے پارلیمانی امور اور اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے یہ شوشہ بھی چھوڑا کہ اپوزیشن کے ممبران پارلیمنٹ نے ان سے نجی ملاقاتوں میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ وقف ترمیمی بل کی حمایت کی اور پارلیمنٹ میں انہوں نے جو کچھ کہا وہ پارٹی کے دبائو میں کہا، لیکن کرن رجیجو نے ان کے نا م یہ کہہ کر ظاہر نہیں کئے کہ اس سے پارٹی میں ان کیلئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔اتناہی نہیں حکمراں جماعت کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ احمدیوں (قادیانی)، آغا خانی اسماعیلی، بوہرہ اور خوجہ مسلمانوں کی طرف سے وقف بل پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے حکومت نے کچھ پسماندہ مسلم تنظیموں کی طرف سے وقف ترمیمی کی حمایت کئے جا نے کا بھی شگوفہ چھوڑا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کو شش کی ہے کہ مسلمانوں کے یہ طبقات اس بل کی حمایت کرتے ہیں۔ احمدی (قادیانی) فرقہ کو جملہ مسلم فرقے مسلمان تسلیم نہیں کرتے لیکن ہندوستانی آئین میںا حمدیوں کو مسلمانوں کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔

حکمراں جماعت کی اس ساری تگ ودو کا مقصد اس مسئلہ پر مسلمانوں کے اتفاق رائے اور اتحاد پر ضرب لگانا ہے۔گودی میڈیا بھی اس کی تشہیر کررہا ہے ۔ایساتین طلاق کے مسئلہ میں کیا جا چکا ہے ۔حکمراں جماعت کے پیش کردہ وقف ترمیمی بل کو لے کر مسلمانوں میں اضطراب اور بے چینی دکھائی دے رہی ہے ہر چند کہ مسلمان وقف بوروڈوں کے عملہ اور متولیوں کی بد عنوانیوں سے بھی نالاں ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان بدعنوانیوں کا علاج کرنے کی بجا ئے تنِ تنہا اربوں کی وقف املاک کو ہڑپنے کیلئے وقف ترمیمی بل لا ئی ہے اور وقف ترمیمی بل کو وہ مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے ۔ مسلم جماعتیں اور مسلم تنظیموں اور مسلم قیادت اور مسلمانوں کے باشعور طبقہ کے ان خدشات اور خطرات کو حکومت نے یکسر مسترد کردیا ہے جو وقف ترمیمی بل سے ہونے والے وقف املاک کے نقصانات پر انہیں کالموں میں کافی لکھا جا چکا ہے ۔پارلیمانی جوائنٹ کمیٹی نے بل سے ان شقوں کو نہیں نکالا جن پر اعتراض ہے اور جس سے وقف املاک کو ہڑپنے کی راہ ہموار ہورہی ہے ان شقوں کو بل میں جوں جوں کا توں رکھا ہے ۔

ان میں وقف بائی یوزر کا خاتمہ اور 12سال سے زائد عرصہ سے وقف بورڈ کی املاک پر قابض افراد کی ملکیت تسلیم کئے جا نے کو بھی باقی رکھا ہے اور جو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ناجا ئز قبضہ میں وقف املاک ہیں اس کیلئے قانونی جواز پیدا کیا ہے ۔یوپی کے وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ نے تو اعلان کردیا ہے کہ ان کے ذریعہ کرائے گئے سروے میںیہ واضح ہو گیا ہے کہ وقف املاک کا 70فیصد سے زائد حصّہ وقف کی ملکیت نہیں بلکہ سرکاری زمین کا حصّہ ہے۔ 577992املاک ایسی ہیں جس کو وقف کی ملکیت بتا یا جا رہا ہے، حکومت یہ زمین واپس لے گی۔ 15فروری کے ایک بیان میں انہوں نے وارننگ دی ہے کہ وقف کے نام پر سرکاری زمین پر قبضہ کرنے والوں کی شناخت کی جا رہی ہے اور یوپی کے 75اضلاع کے کلکٹروں سے رپورٹ مانگی گئی ہے ۔

مرکز کی مودی حکومت اور دوسری بی جے پی کی صوبائی حکومتیں بھی ایسے ہی ارادے رکھتی ہیں۔وقف کو بدنا م کرنے کیلئے یہ جھوٹا اور مکروہ پروپیگنڈہ بھی حکومت کی طرف سے زور شور سے کیا جارہا ہے کہ وقف کی بتا کر جس املاک پر انگلی رکھ دی جاتی ہے وہ وقف کی ہوجاتی ہے اور وقف املاک کا بیشتر حصہ ایسا ہی ہے۔ حکومت کا یہ پرو پیگنڈہ جھوٹ پر مبنی اور انصاف کے منا فی ہے۔ بظاہر یہ سارا کھیل پو لرائزیشن کیلئے کھیلا جا رہا ہے اور یہ سب بہار کے 2025کے انتخابات اور 2027کے یو پی کے انتخابات پیش نظر ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپوزیشن جماعتیں اور مسلم پر سنل لاء بورڈ کیا حکومت کو اس کے ارادوں سے باز رکھ سکتے ہیں اور کیا ان کے دبائو میںوقف ترمیمی بل حکومت واپس لے سکتی ہے ۔

بظاہر اس کے آثار نظر نہیںآتے ۔ہر چند کہ مسلم جماعتوں اور ان کی نمائندگی کرنے والے مسلم پرسنل لاء بورڈ نے وقف ترمیمی بل کو مذہبی تفریق پر مبنی قرار دیا ہے اوربورڈ سمجھتا ہے کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ آئین کا بھی ہے ۔بورڈ نے دوٹو ک اعلان کیا ہے کہ بورڈ قانون کے دائرہ میں ملک گیر تحریک چلا ئے گا اور دیگر اقلیتوں کو بھی اس میں شامل کرے گا ۔ تاہم اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ بورڈ اپنی سابقہ ناکامیوں کے پیش نظر جو بھی قدم اٹھائے مؤثر اور مضبوط قدم اٹھائے جس سے بورڈ اور مسلمانوں کا بچا کھچا وقار بحال رہے۔ یاد رہے کہ ’ راستے سب بند ہیں کوچہ قاتل کے سوا۔‘ وقف بل کولے کر جہاں مسلم پر سنل لاء بورڈ کی آزمائش ہے ۔ وہیں یہ آزمائش اپوزیشن جماعتوں کی بھی ہے ۔ اپوزیشن نے جس طرح سنسد میں وقف ترمیمی بل کے خلاف آواز بلند کی، سڑک پر بھی اس کے خلاف ان کو آواز بلند کرنی چاہئے۔ نتیش کمار اور چندرا بابو نائیڈو سے توقع رکھنا پہلے بھی بے سودرہا ہے اور آئندہ بھی بے سود ہو گا ۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS