ملک کے جمہوری ڈھانچے میں انتخابات محض طاقت کے حصول کا ذریعہ نہیں،بلکہ عوامی اختیار کے اظہار کا مقدس موقع ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ووٹ کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ لیکن جب انتخابی عمل ہی پر سوالیہ نشان لگنے لگیں،جب ووٹر لسٹ کی ’تصحیح‘ کے نام پر شہریوں کی شہریت مشکوک بننے لگے،جب سپریم کورٹ کی ہدایات کو نظرانداز کرکے انتخابی ادارے سیاسی بیانیوں کے ہم قدم ہوجائیں تو یہ جمہوریت کی بنیادوں کو ہلا دینے والی بات ہے۔
سال 2019 میں وزیر داخلہ امت شاہ نے صاف لفظوں میں اعلان کیا تھا کہ پہلے شہریت ترمیمی قانون (CAA) لایا جائے گا،اس کے بعد ملک گیر سطح پر نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) کا نفاذ عمل میں آئے گا۔ ان کا بیان ایک باقاعدہ حکمت عملی کی پیش بندی تھی۔ اسی تناظر میں بہار میں حالیہ مہینوں میں ووٹر لسٹ کی غیرمعمولی نظرثانی کا عمل شروع ہوا۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کی 28 جولائی کو ہونے والی سماعت سے قبل کمیشن کی غیرمعمولی پھرتیاں اور فارم بھرنے کے عمل کو جلد از جلد مکمل کرنے کی تگ و دو،ایک سنگین تشویش کو جنم دیتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اب تک 80 فیصد فارم بھرے جا چکے ہیں اور 30 ستمبر تک حتمی ووٹر لسٹ تیار کر لی جائے گی۔ یہ سوال اہم ہے کہ جب سپریم کورٹ نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں دیااور 10 جولائی کو اپنی سماعت کے دوران انتخابی کمیشن کی نیت و صلاحیت پر اہم سوالات بھی اٹھائے،تو یہ عجلت آخر کس بات کا پتہ دیتی ہے؟ عدالت نے تین بنیادی نکات کی وضاحت مانگی یعنی کمیشن کے پاس ووٹر لسٹ میں ترمیم کا اختیار کیا ہے،یہ اختیار کس حد تک استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ عمل کس مدت میں مکمل ہونا چاہیے۔ ان اہم سوالات کے جواب سے پہلے ہی بوتھ لیول افسران کے ذریعہ بنگلہ دیشی،نیپالی اورروہنگیا جیسے الفاظ کا استعمال اور ان پر مبنی فہرست سازی کا آغاز،بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ صرف بہار میں تین کروڑ ووٹرز کے اخراج کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے،جن میں سے ایک کروڑ مہاجر مزدور ہیں۔ وہ مزدور جو دہلی،ممبئی،احمدآباد اور بنگلور کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں،آج اپنی ہی ریاست میں مشکوک بنادیے گئے۔
بہار میں یہ تمام سرگرمیاں جاری ہیں،لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات کی تیاری ہو رہی ہے۔ ریاستی چیف الیکٹورل آفس نے بوتھ لیول افسران کی تقرری کا عمل شروع کر دیا ہے،تربیت دی جا رہی ہے اور اگست کے وسط یا آخر تک ووٹر لسٹ کی گہری نظرثانی (SIR) کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کا امکان ہے۔ اگرچہ ابھی نوٹیفکیشن سامنے نہیںآیا،لیکن دہلی میں کمیشن کی چوکسی بتاتی ہے کہ فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مغربی بنگال میں آخری SIR دو دہائیاں پہلے 2002 میں ہوا تھا۔ اب اسے ایک ایسے وقت پر لاگو کیا جارہا ہے جب مرکز میں بی جے پی حکومت بنگال میں اپنی سیاسی موجودگی کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ کمیشن کی دستاویزی فہرست پر بنگال کی حکمراں جماعت ترنمول کانگریس نے شدید اعتراضات کیے ہیںاور مطالبہ کیا ہے کہ 2024 تک کسی بھی ووٹر کا اندراج یا اخراج نہ کیا جائے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس عمل کے ذریعے ایک طویل المدتی منصوبہ روبہ عمل لایا جا رہا ہے، پہلے ووٹر لسٹ کی نظرثانی‘ پھر مردم شماری‘ اس کے بعد اقلیتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کو ’غیر ملکی درانداز‘ قرار دے کر ملک سے بے دخل کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اگرچہ اس پوری مشق کو تکنیکی،آئینی اور عدالتی پردے میں لپیٹ دیا گیا ہے، لیکن اس کے سیاسی مضمرات ناقابل تردید ہیں۔ کیا واقعی یہ پورا عمل ایک ’سائنس آف ایکسکلوزن‘ یعنی اخراج کی سائنس کا حصہ ہے،جہاں شہریت کی آڑ میں سیاسی مفادات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے؟
سپریم کورٹ کی اگلی سماعت 28 جولائی کو متوقع ہے۔ کروڑوں ووٹرز، خاص طور پر وہ لوگ جن کے پاس زمین، تعلیم یا اعلیٰ سطح کی دستاویزات نہیں،عدالت عظمیٰ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف ان کی شہریت بلکہ ان کی شناخت،وجود اور جمہوری حق رائے دہی کا فیصلہ ہوگا۔
ایک جمہوری ملک میں انتخابی عمل کی غیر جانبداری پر اگر عوام کا یقین متزلزل ہو جائے تو صرف ووٹ کی طاقت نہیں جاتی،پورا آئینی توازن بگڑ جاتا ہے۔ لہٰذا الیکشن کمیشن جیسے ادارے سے یہ توقع بجا ہے کہ وہ اپنی غیر جانب داری اور آئینی دیانت داری کو قائم رکھتے ہوئے سیاسی آقائوں کی بجائے عوام کے حق میں فیصلہ کرے۔ بصورت دیگر،تاریخ صرف شہریت کا تعین نہیں کرے گی،بلکہ بے حسی اور استبداد کے ان ایام کو بھی یاد رکھے گی جن میں رائے دہندگان کو اپنی ہی زمین پر بے وطن بنا دیا گیا۔