ووٹ،شناخت اور سیاست

0

ہندوستانی جمہوریت کیلئے ووٹ محض حق نہیں بلکہ عوامی اختیار کا مظہر ہے۔ اسی حق رائے دہی کی بنیاد پرسپریم کورٹ میں ایک سنگین مقدمہ زیر سماعت ہے،جو بظاہر ایک انتظامی عمل یعنی خصوصی گہری نظرثانی (Special Intensive Revision) سے متعلق ہے،مگر درحقیقت یہ عمل ووٹ کی حرمت،شہریت کی پہچان اور جمہوری مساوات جیسے اصولوں پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔

آج 10 جولائی 2025کو سپریم کورٹ میں جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جے مالیہ باگچی پر مشتمل دو ججوں کی بنچ نے بہار میں ووٹر لسٹ کی نظرثانی سے متعلق معاملے کی تفصیل سے سماعت کی۔ یہ مقدمہ کئی درخواستوں پر مبنی ہے، جن میں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا کی درخواستیں شامل ہیں۔ دیگر اہم درخواست گزاروں میں راشٹریہ جنتا دل کے منوج جھا، کانگریس کے کے سی وینوگوپال، این سی پی (شرد پوار گروپ) کی سپریہ سولے، سی پی آئی کے ڈی راجہ، سماج وادی پارٹی کے ہریندر سنگھ ملک، شیو سینا(یو بی ٹی) کے اروند ساونت، جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے سرفراز احمد اور سی پی آئی(ایم ایل) کے نمائندے شامل ہیں۔ عدالت کے روبرو جو معاملہ پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ ریاست بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی محض 2003 کے بعد رجسٹرڈ ووٹروں پر لاگو کی جارہی ہے اور ان سے دوبارہ اپنی شہریت اور مقامی رہائش کا ثبوت مانگا جا رہا ہے،وہ بھی اس وقت جب اسمبلی انتخابات محض چند ماہ کے فاصلے پر ہیں۔

سپریم کورٹ نے برملا اظہار کیا کہ شناختی دستاویزات جیسے آدھار،راشن کارڈ اور یہاں تک کہ خود الیکشن کمیشن کا جاری کردہ فوٹو کارڈ بھی اس تصدیقی عمل میں تسلیم نہیں کیا جارہا،جسے عدالت نے نہ صرف من مانی بلکہ امتیازی بھی قرار دیا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا نے تنبیہ کی کہ اتنے قلیل وقت میں اس کثیر تعداد پر مشتمل آبادی کی تصدیق ممکن نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فرد کو انتخاب سے قبل ووٹ کے حق سے محروم کر دیا جائے گا اور وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر پائے گا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن سے واضح طور پر تین اہم سوالات بھی دریافت کیے، اول یہ کہ اس عمل کی قانونی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت ہے؟ کیوں کہ اس قانون میں صرف دو اصطلاحات یعنی سمری ریویژن اور ایکسیپشنل ریویژن کا ذکر ہے، ’’خصوصی گہری نظرثانی‘‘کی اصطلاح کہاں سے آئی؟ دوم اس ریویژن کے عمل کی شفافیت اور درستگی کا معیار کیا ہے؟ اور تیسراسوال یہ کیا کہ اس مشق کو انتخابات سے فوراً قبل ہی کیوں نافذ کیا گیا ہے؟

الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل وویک تنکھا اور ایڈووکیٹ راکیش دویدی نے دفاع میں کہا کہ آدھار شہریت کا ثبوت نہیں ہے،کیونکہ یہ غیر ملکیوں کو بھی جاری ہوسکتا ہے۔ تاہم،عدالت نے سختی سے دریافت کیا کہ اگر آدھار کی بنیاد پر کاسٹ سرٹیفکیٹ جاری کیے جا سکتے ہیں تو پھر آدھار کو ووٹر کی شناخت کیلئے ناقابل قبول کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

دراصل،اس پورے عمل کا سب سے تشویشناک پہلو اس کی امتیازی نوعیت ہے۔ پٹنہ جیسے شہری علاقوں میں ووٹرز سے آدھار، راشن کارڈ یا ووٹر آئی ڈی پر مبنی تصدیق قبول کی جا رہی ہے، جبکہ سیمانچل کے دیہی اور مسلم اکثریتی اضلاع کشن گنج، پورنیہ، ارریہ، کٹیہارمیں پیدائشی سند، ذات کا سرٹیفکیٹ یا زمین کے کاغذات جیسی دستاویزات طلب کی جا رہی ہیں،جو بڑی تعداد میں عوام کے پاس نہیں۔ اس تفریق نے بلاک دفاتر میں لمبی قطاریں،فکرمندی اور خوف کی ایک فضا پیدا کر دی ہے،خاص طور پر ان علاقوں میں جو سیلاب زدہ اور پسماندہ ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بہار کے 7.98کروڑ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے اب تک صرف 57 فیصد(تقریباً 4.5کروڑ) نے گنتی فارم جمع کرائے ہیں۔ لیکن اگر یہی عمل جاری رہا تو لاکھوں اہل ووٹرز، خاص کر غریب،مہاجر اور اقلیتی طبقات، ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ آج ہونے والی سماعت میں سینئر ایڈووکیٹ ورندا گروور نے عدالت میں یہ نکتہ بھی بیان کرتے ہوئے واضح انداز میں کہا کہ یہ مشق دراصل غریبوں اور کمزور طبقات کو فہرست سے باہر رکھنے کیلئے بنائی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے آئندہ سماعت 28 جولائی 2025 کو طے کی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس دن الیکشن کمیشن ان سوالات کا جواب دے گا۔ لیکن اس وقت تک سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ مشق ووٹر لسٹ کی تطہیر ہے یا سیاسی انجینئرنگ کی ایک شکل؟ کیا جمہوریت کا بنیادی حق ووٹ ایک بار پھر شناخت کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گا؟

اس وقت جب ملک انتخابات کی دہلیز پر کھڑا ہے،ووٹ کی قیمت محض سیاسی جماعتوں کی گنتی تک محدود نہیں ہونی چاہیے،بلکہ یہ اس سماجی اعتماد کا مظہر ہے جس پر جمہوریت قائم ہے۔ اس اعتماد کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ شناخت کی سیاست کو ایک آلہ نہ بنایا جائے بلکہ حق شہریت کو،جیسا کہ آئین نے مقرر کیا ہے،غیر مبہم،غیر مشروط اور غیر امتیازی بنیادوں پر تسلیم کیا جائے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS