ایم وینکیا نائیڈو
کسی بھی عظیم تبدیلی کا آغاز ایک انقلابی قدم سے عبارت ہے۔8مختلف ریاستوں کے14 انجینئرنگ کالجوں میں نئے تعلیمی سال سے منتخب شاخوں میں ریاستی زبانوں میں کورسز پیش کرنے کا حالیہ فیصلہ ملک کے تعلیمی منظرنامے میں ایک تاریخی لمحے کی حیثیت رکھتا ہے جس پر نسل آئندہ کے مستقبل کا دارومدار ہے۔
اسی طرح آل انڈیا کونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن(اے آئی سی ٹی ای) کا نئی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں 11مادری زبانوں میں بی ٹیک پروگراموں کی اجازت دینے کا فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک یادگار قدم ہے جو ہندی، مراٹھی، تمل، تیلگو، کنڑا، گجراتی، ملیالم، بنگالی، آسامی، پنجابی اور اڑیا زبانوں میں بی ٹیک کے طلبا کے لیے بے شمار مواقع کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
وزیراعظم جناب نریندر مودی نے قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے خطاب میں اس قدم کو سراہا اور کہا کہ این ای پی کا مادری زبان میں تعلیم دینے کا فیصلہ غریب طبقے اور دیہی و قبائلی پس منظر کے طلبا میں خوداعتمادی کا جذبہ پیدا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی تعلیم میں بھی مادری زبان کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ودّیا پرویش پروگرام کے خصوصی حوالے سے بھی بات کی۔
ان قابل ذکر اقدامات کا والہانہ خیرمقدم کیا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ لاکھوں طلبا جو اپنی مادری زبان میں پیشہ ورانہ تعلیم کے حصول کے خواہاں ہیں ان کے خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں سال فروری میں 83000 سے زائد طلبا پر اے آئی سی ٹی ای کے ذریعہ کرائے گئے ایک سروے میں تقریباً 44فیصد طلبا نے انجینئرنگ کی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سروے سے مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے متعلق طلبا کے قوی رجحانات پر روشنی پڑتی ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی2020کا ترقی پسندانہ موقف ابتدائی درجات ہی سے بچوں کے مادری زبان میں تعلیم کے حصول کی وکالت کرتا ہے کیوں کہ اس طرح طلبا کی ذہنی استطاعت اور پوشیدہ صلاحیت کو بروئے کار لانے میں حقیقی معنوں میں بہت مدد ملتی ہے۔
اپنی زبان میں گفتگو کرنے کو ہم میں سے بہت سے لوگ احساس کمتری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس معیوب رجحان کو اجتماعی سطح پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک زبان کو نظرانداز کرکے ہم نہ صرف یہ کہ بہت بڑے علمی خسارے کا سودا کرتے ہیں بلکہ نسلِ آئندہ کو اس کے متمول سماجی، ثقافتی ولسانی ورثے سے بھی محروم کرتے ہیں۔
متعددمطالعات و تحقیقات سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جو بچے ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرتے ہیں وہ اجنبی زبانوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یونیسکو اور دیگر ادارے اس حقیقت پر زور دیتے رہے ہیں کہ مادری زبان میں اکتسابِ علم خوداعتمادی اور خودشناسی کے ساتھ ساتھ بچے کی مجموعی نشوونما کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ اب اسے بدقسمتی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ آج بھی کچھ سرپرست واساتذہ انگریزی کو بلاوجہ اہمیت دیتے ہیں جس کے نتیجے میں بچے کی مادری زبان اسکول میں اس کی دوسری/تیسری زبان ہوکر رہ جاتی ہے۔
یہاں عظیم ہندوستانی ماہر طبیعیات اور نوبل انعام یافتہ سرسی۔وی۔رامن کے الفاظ کو یاد رکھنا نامناسب نہ ہوگا جنہوں نے ایک مثالی بصیرت کا مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں سائنس اپنی مادری زبان میں پڑھانی چاہیے بصورت دیگر سائنس طبقۂ خواص تک محدود ہوکر رہ جائے گی اور عوام الناس سے اس کا رشتہ منقطع ہوجائے گا۔ اگرچہ ہمارے نظام تعلیم نے اس حد تک ترقی کرلی ہے کہ وہ انجینئرنگ، طب، قانون اور لسانیات میں بین الاقوامی شہرت یافتہ کورسز پیش کرتا ہے لیکن ہم نے خلافِ عقل اپنے ہی لوگوں کو اس تک رسائی سے محروم کردیا ہے۔ ہم نے صرف اس فریب میں برسوں گزار دیے کہ انگریزی میڈیم یونیورسٹیوں اور کالجوں کا ایک چھوٹا بلبلہ بناکر مطمئن رہے، اور ہماری اپنی زبانیں پیشہ ورانہ تعلیم سے محروم ہی رہیں۔ اس طرح ہم نے اپنے طالب علموں کی اکثریت کی راہِ ترقی میں رکاوٹ پیدا کی۔
اگر ہم عالمگیر سطح پر اعلیٰ ذریعۂ تعلیم پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو اس حقیقت کا بھرم کھل جائے گا کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ G-20ممالک میں بیشتر ایسے ہیں جہاں یونیورسٹیوں میں بہترین تعلیم کا ذریعہ وہاں کے عوام الناس کی زبانیں ہیں۔
مثال کے طور پر ہم ایشیائی ممالک پر ہی نظر ڈالیں۔ جنوبی کوریا میں70 فیصد یونیورسٹیوں میں جنوبی کوریائی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے اور وہ بین الاقوامی سطح پر اپنا کردار نبھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جنوبی کوریا میں انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کرنے کے رجحان کو دیکھتے ہوئے وہاں کی حکومت نے یہ انوکھا قدم اٹھایا کہ 2018میں اسکولوں میں تیسری جماعت تک انگریزی زبان کی تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی۔ کیوں کہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ طلبا میں جنوبی کوریائی زبان کی مہارت سست پڑتی جارہی ہے۔
اسی طرح جاپان کی یونیورسٹیوں میں بیشتر تعلیمی پروگراموں کی تدریس جاپانی زبان میں ہوتی ہے۔ یہی صورت حال چین کی بھی ہے جہاں یونیورسٹی سطح پر ذریعۂ تعلیم وہاں کی عوامی زبان ہے۔ یوروپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ فرانس اور جرمنی میں اپنی زبانوں کے تحفظ کا رجحان شدت سے موجود ہے۔ فرانس تو اس حد تک جاپہنچا ہے کہ ’’ذریعہ تدریس صرف فرانسیسی‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ جبکہ جرمنی میں اسکولوں میں تعلیم کی زبان بنیادی طور پر صرف جرمن ہے اور ماسٹر پروگرام بھی 50فیصد جرمن میں پڑھاتے ہیں۔ کینیڈا میں لسانی تنوع کی بہت عمدہ تصویر سامنے آتی ہے، اگرچہ زیادہ تر صوبوں میں ذریعۂ تعلیم انگریزی ہے۔ جبکہ کیوبک میں فرانسیسی بولنے والوں کا غلبہ ہے اور یہاں کے بیشتر اسکولوں میں تحتانوی اور ثانوی سطح تک بلکہ متعدد یونیورسٹیوں میں بھی ذریعۂ تعلیم فرانسیسی ہے۔
اس عالمی تناظر کی روشنی میں ہندوستان کی ستم ظریفی یہ ہے کہ زیادہ تر پیشہ ورانہ کورسز انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں۔ انجینئرنگ، طب اور قانون میں تو صورت حال مزید ناگفتہ بہ ہے۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ اب ہم اپنی آواز اپنی زبانوں میں تلاش کرنے لگے ہیں۔
ہم اس سنگین صورت حال کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں؟ قومی تعلیمی پالیسی اس کا حل پیش کرتی ہے۔ یہ ہماری زبانوں کی بقا و تحفظ اور ہمارے معیار تعلیم کی بہتری کی راہ ہموار کرتی ہے۔ اس کا آغاز ہمیں ابتدائی تعلیم سے کرنا چاہیے۔ پانچویں جماعت تک ذریعۂ تعلیم لازماً مادری زبان ہونی چاہیے، اور آہستہ آہستہ اس سلسلہ کو آگے بڑھانا چاہیے اور اسے پیشہ ورانہ تعلیم تک لے جانا چاہیے۔ اس ضمن میں مذکورہ بالا 14کالجوں کا اقدام قابل تحسین و ستائش ضرور ہے لیکن یہ کوشش ملک گیر پیمانے پر ہونی چاہیے۔ خانگی یونیورسٹیوں کو بھی آگے آنا چاہیے اور دولسانی کورسز سے ہی سہی اس کا آغاز کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ طلبا کو مادری زبان میں حصولِ تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تکنیکی نصاب میں اعلیٰ معیار کی کتابوں کا فقدان ہے۔ اس طرف فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
آج کے ڈیجیٹل عہد میں دوردراز علاقوں کے طلبا تک ہندوستانی زبانوں کے کورسز کی رسائی کو بہتر اور یقینی بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا مفید مطلب استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ڈیجیٹل لرننگ ایکوسسٹم میں زیادہ سے زیادہ مواد تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک نیا میدان ہے اور اس کا جھکاؤ انگریزی کی طرف بہت زیادہ ہے۔ یہ رجحان ہمارے بچوں کی اکثریت کو استفادے سے محروم کردے گا۔ اس کمی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اے آئی سی ٹی ای اور آئی آئی ٹی مدراس باہمی اشتراک سے سوئم کے نصاب کو 8علاقائی زبانوں تمل، ہندی، تیلگو، کنڑا، بنگالی، مراٹھی، ملیالم اور گجراتی میں متعارف کروا رہے ہیں۔ یہ انجینئرنگ کے طلبا کی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے انتہائی مفید قدم ہوگا اور انہیں بعد کے زمانہ میں انگریزی کے زیراثر نصاب میں زیادہ آسانی کے ساتھ منتقل کرنے میں مدد ملے گی۔ اعلیٰ تعلیم کو حقیقی معنوں میں جمہوری بنانے کے لیے ہمیں مزید اس طرح کی ٹیکنالوجی کی قیادت والے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔
مادری زبان میں تعلیم پر زور دینے سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ ہم دوسری زبانوں کو چشم کم سے دیکھتے ہیں۔ یہ بات میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہر شخص کو ہفت زبان ہونا چاہیے لیکن مادری زبان میں حصول تعلیم کی حیثیت کلیدی اور بنیادی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جس بات کی میں وکالت کررہا ہوں، اس سے مراد ’مادری زبان بہ مقابلہ انگریزی‘ نہیں ہے، بلکہ ’مادری زبان جمع انگریزی‘ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی برکتوں کے طفیل آج دنیا بڑی تیزی کے ساتھ باہم مربوط ہوگئی ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مختلف زبانوں میں مہارت حاصل کرنے سے کامیابی کے نئے افق روشن ہوجاتے ہیں۔
اپنی زبان میں گفتگو کرنے کو ہم میں سے بہت سے لوگ احساس کمتری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس معیوب رجحان کو اجتماعی سطح پر ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حقیقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک زبان کو نظرانداز کرکے ہم نہ صرف یہ کہ بہت بڑے علمی خسارے کا سودا کرتے ہیں بلکہ نسلِ آئندہ کو اس کے متمول سماجی، ثقافتی ولسانی ورثے سے بھی محروم کرتے ہیں۔
مجھے قوی امید ہے کہ آئندہ برسوں میں کچھ مزید ادارے اس تعلیمی پالیسی سے تحریک پاکر اپنی مادری و علاقائی زبانوں میں نصاب تیار کریں گے اور ان سے نسلِ نو کو متعارف کروائیں گے۔ سرزمین ہند بے پناہ صلاحیتوں کی حامل ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کی پوشیدہ صلاحیتوں پر قدغن لگانے کی بجائے انہیں غیرمقفل کرنا چاہیے۔ ہمارے نوجوانوں کے فطری جوہر اور ان کی لیاقتوں اور قابلیتوں کو صرف اس لیے محدود و مسدود نہیں کردینا چاہیے کہ وہ ایک غیرملکی زبان میں گفتگو کی صلاحیت سے محروم ہیں، بلکہ ان کی استعداد اور جوشِ نمو کو ابھرنے اور نکھرنے کے لیے سازگار ماحول تیار کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ؎
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(نوٹ: مضمون نگار عزت مآب نائب صدرجمہوریہ ہند ہیں)