وشوکرما یوجنا: نچلی سطح پر کام کرنے والوں کیلئے لاسکے گی خوشیاں؟

0

آر کے سنہا

کبھی یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ملک کے آزاد ہونے کی اتنی دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہم نے موچی، دھوبی، بڑھئی، کمہار جیسی نچلی سطح پر کام کرنے والے ماہر کاریگروں کے مفادات کے تعلق سے کوئی جامع پالیسی کیوں نہیں بنائی؟ اگر ان کے بارے میں پہلے سوچا جاتا تو یہ بھی ملک کی ترقی کا فائدہ اٹھا رہے ہوتے۔ ان کو نظرانداز تو کیا گیا۔ ہاں، اتنا اطمینان ہے کہ اب ان کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔ اب حکومت ان کی زندگی میں خوشیاں لانے کے لیے وشوکرما یوجنا لے کر آرہی ہے۔ اس یوجنا پراگلے پانچ سال میں 13ہزار کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے آئندہ 17ستمبر کو یوم پیدائش پر شروع ہونے والی اس یوجنا کے تحت موچی، دھوبی، بڑھئی، لوہار، کمہار وغیرہ کو پانچ فیصد کی شرح سے ایک لاکھ روپے اور دوسرے مرحلہ میں دو لاکھ روپے کا قرض مل سکے گا۔ دستکاروں اور کاریگروں کو ٹیکنیکل ٹریننگ بھی دی جائے گی۔ ٹریننگ لینے والوں کو ہر دن 500روپے کا اعزازیہ دینے کا نظم ہورہا ہے۔
حقیقت میں افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اتنے حساس بھی نہیں رہے جس سے کہ سماج کے آخری پائیدان پر کھڑے لوگوں کے لیے فلاحی اسکیمیں بن پاتیں۔ کیا یہ ہمارے ملک-معاشرہ میں شامل نہیں ہیں؟ ہم نے ان کی اتنی بے قدری کیوں کی؟ کیا یہ ووٹ بینک کا حصہ نہیں تھے؟
راج کپور کی 1954میں ریلیز ہوئی امر فلم بوٹ پالش کے کریکٹر بھولا جیسے بچے ملک کے تمام شہروں کے بازاروں میں آرام سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بوٹ پالش فلم کے برعکس اصل زندگی میں بھولا جیسے کسی بچہ کے ساتھ اس کی بہن بیلو یا کوئی اور لڑکی نہیں ہوتی۔ یہ جگہ جگہ اپنے ایک لکڑی کے ڈبے کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس میں الگ الگ رنگوں کی پالش، برش اور کپڑے ہوتے ہیں۔ کچھ کے پاس موچی کا سامان بھی ہوتا ہے۔ یہ انہی سے اپنے صارفین کے جوتے سینڈل وغیرہ چمکاتے اور بناتے ہیں۔ یہ 15سال سے55سال تک کے ملیں گے۔ کئی کئی تو بوٹ پالش کا کام کرتے ہوئے ہی ادھیڑ ہوگئے ہیں۔ یہ جب کام کرنے لگتے ہیں تو یہ بچے ہوتے ہیں۔ گھر کی کمزور مالی حالت کے سبب پڑھ نہیں پاتے اور پھر کرنے لگتے ہیں ’’بوٹ پالش‘‘ اور موچی کا کام۔ ان کی کبھی کوئی مدد نہیں کرتا۔
کچھ دن قبل راجدھانی میں اختتام پذیر ہوئے جی20سربراہ اجلاس میں حصہ لینے کے لیے برازیل کے صدر لولا بھی تشریف لائے تھے۔ وہ بھی موچی خاندان سے تھے۔ انہوں نے بھی بچپن میں بوٹ پالش کیا تھا۔ آج وہ دنیا کے بیحد بااثرلیڈر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے اپنے سماج کے حاشیہ پر دھکیلے گئے لوگوں کو مناسب مواقع دیے ہوتے تو وہ بھی ملک کی مین اسٹریم کا حصہ ہوتے۔ خیر، اب انہیں مواقع ملیں گے تو وہ آگے بڑھیں گے۔
وشوکرما یوجنا کے بہانہ قطب مینار کی چرچا کرنا مناسب ہوگا۔قطب مینار کی تعمیر میں وشوکرما جی کا بھی آشیرواد رہا ہے۔ یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔ ہوا یہ کہ 1369میں بجلی گرنے کی وجہ سے قطب مینار کی بالائی منزلوں کے کچھ حصے کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ تب دہلی کے تخت پر فیروزشاہ تغلق کا راج تھا۔ انہوں نے قطب مینار کے نقصان پہنچے حصوں کی مرمت کے احکام دیے۔ ان کے احکام کے بعد قطب مینار کی پا نچویں منزل نئے سرے سے بنائی گئی۔ اس میں سنگ مرمر کا بھی بھرپور استعمال کیا گیا۔ تاریخ داں ڈاکٹر سوپنالِڈل کہتی ہیں کہ ’’قطب مینار کی مرمت کے کام کو انجام دینے والے آرکیٹیکٹ، ٹھیکہ داروں اور مزدوروں نے تعمیری مقام پر اپنے نام جیسے نانا، سالہا، لولا لکشمنا بھی لکھے دیے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ان کا سارا کام وشوکرما کے آشیرواد سے مکمل ہوا۔‘‘ یہ سب اب بھی لکھا ہوا ہے۔ اے ایس آئی کی ایک رپورٹ میں سنسکرت میں کندہ ٹھیکہ داروں اور مزدوروں کے حوالے پائے جاتے ہیں۔
بیشک، وشوکرما یوجنا ان لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگی میں نہ صرف مثبت تبدیلیوں کا سبب بنے گی بلکہ ترقی یافتہ ہندوستان کا راستہ بھی ہموار کرے گی۔ ہندوستان کی جی ڈی پی میں غیرمنظم سیکٹر کی حصہ داری تقریباً50فیصد ہے۔ ملک کی لیبرفورس کا 90فیصد غیرمنظم سیکٹر میں کام کرتا ہے۔ روایتی پیشے سے منسلک کاریگروں کی ہمارے سماج میں کافی اہمیت ہے۔ ہمارے یہاں ایسے کاریگر کثیرتعداد میں ہیں جو اپنے ہاتھ کے ہنر سے دیسی اوزاروں کا استعمال کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہم نے کورونا کے دور میں انہیں بھی دھکے کھاتے دیکھا تھا۔ تب یہ سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر کاسڑک کے راستہ سفر کرکے اپنے گاؤں پہنچے تھے۔ اس مشکل سفر میں کئی مزدور مارے بھی گئے تھے۔ انہیں حکومت سے ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ اگر انہیں کچھ لون ملنے لگے تو یہ اپنے کام کو چمکا سکیں گے۔
آزادی کے بعد ملک کے روایتی پیشے سے منسلک کاریگروں کو حکومت سے جس مدد کی ضرورت تھی، وہ انہیں نہیں مل پائی۔ یہی وجہ رہی کہ کئی لوگوں کو اپنا پشتینی اور روایتی کاروبار چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اس اسکیم کو پوری ایمانداری سے نافذ کرنا ہوگا، تاکہ اس کا فائدہ انہیں مل سکے جو اس کے سچ میں مستحق ہیں۔ یاد نہیں آتا کہ پہلے کبھی ہنرمندوں کے مفاد میں اتنی جامع اسکیم شروع کی گئی ہو۔ ہم نے کورونا کے دور میں دیکھا تھا جب لکڑی کا کام کرنے والے کارپینٹر، پلمبر، نائی وغیرہ بھی دانے دانے کو محتاج ہوگئے تھے۔ ان کا تقریباً دس ماہ تک کام کاج بالکل ٹھنڈا رہا۔ ملک میں پلمبنگ کے کام پر اڈیشہ کے پلمبروں کی تقریباً اجارہ داری ہے۔ ان کی وہی حالت ہے جو اسپتالوں میں کیرالہ کی نرسوں کی ہوتی ہے۔ یہ صبح ہی اپنے اوزاروں کا بیگ لے کر خاص چوراہوں یا ہارڈویئر کی دکانوں پر مل جاتے ہیں۔ وہاں سے ہی انہیں لوگ اپنے گھروں اور دفتروں میں لے جاتے ہیں یا پھر انہیں بلالیتے ہیں۔ اپنے کام میں ماہر یہ اڑیہ پلمبر ایک بار جو اپنے کام کا جو دام مانگ لیتے ہیں، پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ یہ روز کے کم سے کم تقریباً ایک سے دو ہزار روپے تک کما ہی لیتے ہیں۔ ان سب پیشوں سے منسلک لوگوں کے لیے وشوکرما یوجنا وردان ثابت ہوسکتی ہے۔ انہیں آسان شرائط پر لون بھی مل سکے گا۔ہنرمندوں کا احترام اور ان کی کام کی قابلیت میں اضافہ ہی جہاں ان کا احترام ہے، وہیں یہ بھگوان وشوکرما کی بھی حقیقی پوجا ہے۔
(مضمون نگار سینئرایڈیٹر، کالم نگار اور سابق رکن پارلیمنٹ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS