مولانا ابوبکرحنفی
طبقہ انسانیت میںصرف انبیاء کرام علیہم السلام ہی ایسی ہستیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معصوم بنایا ہے اور ان کے قلوب کو معصیات اور شہوانی احساسات وجذبات سے پاک رکھا ہے،ان کے علاوہ تمام نوعِ انسانی میں فطری اور تخلیقی طور پر عصیان کا عنصر موجود ہے اور جب نفس وشیطان اس پر غلبہ پا لیتے ہیں تو وہ اپنی سرشت سے مجبور ہو کر گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے۔لیکن خدا تعالی کی کریم ذات نے اس کی تلافی کا طریقہ بھی بتادیا ہے کہ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اللہ تعالی کے حضور استغفار کر کے ندامت کے آنسوؤں سے دل کی سیاہی کو دھو لیا جائے،گویا استغفار گناہوں کے زہر کو ختم کرنے کے لئے تریاق کا کام دیتا ہے ،جیسا کہ ایک حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوہے کی طرح دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے،صحابہ کرامؓ نے عرض کیا :اس کی صفائی کی کیا صورت ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ استغفار ہے۔
قرآن و سنت میں استغفار کی بہت تاکید اور ترغیب آئی ہے،قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے :جس نے برا عمل کیا یا اپنے نفس پر ظلم کیا پھر اللہ سے استغفار کیا تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا (النساء:۱۱۰)۔ صحیح مسلم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اے لوگو! استغفار کرو،بلاشبہ میں روزانہ سو مرتبہ اللہ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں ۔اس سے استغفار کی اہمیت کا اندازہ لگائیں کہ کائنات کی افضل ترین ہستی جس کے قریب سے بھی گناہ نہیں گزر سکتا، وہ بھی یومیہ سو مرتبہ استغفار کر رہی ہے، یہ دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کمالِ بندگی ہے ورنہ اصل مقصود امت کو استغفار کی اہمیت سے آشنا کرنا ہے۔
عموماََیہ سمجھا جاتا ہے کہ استغفار چند مخصوص اور منقول کلمات کے پڑھنے کو کہتے ہیں لیکن حقیت یہ ہے جب تک استغفار کے ساتھ توبہ کا اہتمام نہ کیا جائے تب تک وہ استغفار نامکمل ہے،استغفار احساسِ ندامت کے ساتھ سابقہ گناہوں سے معافی مانگنے کا جبکہ توبہ آئندہ کے لئے ہمیشہ طور پر گناہ چھوڑنے کے پختہ عزم اور ارادے کا نام ہے۔اگر اللہ تعالی سے کسی گناہ پر معافی مانگتے ہوئے دل میں یہ خیال ہے کہ یہ گناہ دوبارہ کروں گا اور اللہ کی ذات چونکہ رحیم و کریم ہے اس لئے دوبارہ اس سے معافی مانگ لوں گا تو یہ انتہاء درجے کی بے مروتی ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت تو بندے کو معاف کرنے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہی ہے اور بندہ اسی کے رحمت کو گناہ کرنے کا بہانہ بنارہا ہے۔ قرآنی اسلوب بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ کامل مغفرت کے لئے محض استغفار پر اکتفاء نہ کیا جائے بلکہ ساتھ توبہ کا بھی التزام کیا جائے ،اللہ تعالی کا ارشادہے:اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرو(ہود:۵۲)۔
توبہ و استغفار ایسا مبارک عمل ہے جو بہت سے دنیوی اور اخروی فوائد پر مشتمل ہے،اخروی فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی ایسے بندے کو اپنا محبوب بنا لیتے ہیں، قرآنِ کریم میں ہے: بیشک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں اور (گناہوں سے) پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتے ہیں(البقرہ)
۔دنیوی فوائد بھی بہت زیادہ ہیں،حضرتِ نوح علیہ السلام کی اپنی قوم سے ہونے والی گفتگو قرآنِ کریم نے نقل کی جس کے ضمن میں استغفار کے فوائد کا تذکرہ ہے، ارشاد ہے: اپنے رب سے استغفار کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور وہ تم پر موسلا دھار بارش بھیجے گا اور مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں باغات عطاء فرمائے گا اور تمہارے لئے نہریں بنائے گا(سورہ نوح)
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار میں ہر پریشانی کا حل ہے لہذا انسان کو کوئی بھی اہم مسئلہ درپیش ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ فورا استغفار کی طرف متوجہ ہو جائے۔ توبہ استغفار کے حوالہ سے یہ بات قابلِ لحاظ ہے کہ بعض گناہ ایسے ہیں جو محض استغفار سے معاف نہیں ہوتے بلکہ انسان کے ذمہ کچھ حقوق واجب ہوتے ہیں جنہیں ادا کرنا استغفار کی تکمیل کے لئے ضروری ہے۔ مثلاََکسی کے ذمہ قضاء نمازیں، قضاء روزے، قسم یا روزے کا کفارہ ،گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ہو تو استغفار سے ان کو مؤخر کرنے کا گناہ تو معاف ہو جائے لیکن ان کی ادائیگی بندہ کے ذمہ بہر حال واجب رہے گی، اسی طرح اگر کسی کا قرض دینے میں تاخیر ہوگئی یاکسی کا حق مار کر بیٹھا ہے تو اس وقت تک معافی کا اعتبار نہیں جب تک وہ صاحبِ حق کا حق ادا نہ کر دے۔
توبہ کی قبولیت کا وقت تب تک ہے جب تک انسان کے حوش و حواس قائم ہیں اور وہ معمول کی زندگی گزار رہا ہے،اگر زندگی ایسے موڑ پر آکر کھڑی ہو گئی کہ بڑھاپے کی وجہ سے عقل نے کام چھوڑ دیا ،بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے آس پاس کے ماحول سے ناواقف اور رشتہ داروں سے نا آشنا ہو گیا اور آخرت کے احوال مثلا فرشتے وغیرہ نظر آنا شروع ہو گئے تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی، اس کو غرغرہ کی حالت کہتے ہیں ،سننِ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک اس پر غرغرہ کی کیفیت طاری نہ ہو جائے۔ اس وقت کے آنے سے پہلے گناہوں سے معافی کا اہتمام کرنا چاہئے ،کیا معلوم کس وقت موت آجائے اور انسان کو اپنی بدعملیوں سے تلافی کا موقع میسر نہ آسکے۔