ہمارے ملک ہندوستان میں تعلیمی ادارے خواہ وہ اسکول ہوںیا کالجز یا دیگر درسگاہیںہوں، طلبا کیلئے علم کے گہوارے ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت سازی کے لئے یہ ادارے جانے جاتے ہیں۔ ان اداروںمیں ان کی بہتر اخلاقی اور دنیاوی تعلیم کا انتظام ہوتا ہے اس لئے وہ ان اداروں کا داخلہ لینے کیلئے انتخاب بھی کرتے ہیں لیکن اگر ان اداروں میں کردار سازی کے بجائے کردار کو بگاڑنے کی بنیاد رکھی جانے لگے تو یہ فکر انگیز بات ہوگی۔ گزشتہ روز یوپی کے گورکھپور کے ایک اسکول میں سینئرطلبا کے ذریعہ جونیئرطالب علم کے ساتھ استحصال کا معاملہ سامنے آیا۔ بتایا جارہا ہے کہ 12 سال کے طالب علم کو پچھلے 15-20 دنوں سے کچھ طلبا پریشان کر رہے تھے۔ ان طلبا نے اس سلسلے میں کسی کو بتانے پر مارنے کی دھمکی بھی دی تھی لیکن بڑھتے تشدد کے بعد طالب علم نے والدین کو جانکاری دی اور یہ معاملہ اسکول اور پولیس انتظامیہ تک جاپہنچا۔ بہر حال پاکسو ایکٹ کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ بہار کے بھاگل پور میں واقع جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں ریگنگ کا معاملہ سامنے آیا تھا جس میں 20 طلبا کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ پہلے جونیئر طلبا کو مرغا بنایا گیا اورپھر سرمنڈوا یا گیا۔ وہیں حال ہی میں گجرات کے پٹن میڈیکل کالج میں ایک طالب علم کی ریگنگ سے موت نے بھلے ہی انتظامیہ اور حکومتوں کی آنکھیں نہ کھولی ہوں لیکن اس سے یہ پیغام تو صاف نظرآتا ہے کہ تمام تر پابندیوں اور عدالتی احکامات کے باوجود حکومتیں اپنی ریاستوں میں ریگنگ کی روایت سے آج بھی آنکھیں موندے ہوئے ہیں اور کالجوں کے انتظامیہ بھی سرد مہری اختیار کئے ہوئے ہیں۔ پچھلے دنوں پٹن میں کالج کے ایک اٹھارہ سالہ طالب علم کے ساتھ جس طرح سے اس کے سینئر طلبا نے ہلاکت خیز مذاق اور بیہودگی کی،یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ تعلیمی اداروں میں آج بھی ریگنگ کو روکنے کی تمام ہدایات اور احکامات کو درکنار کر کے ، اس کے انسداد کیلئے قائم کردہ کمیٹیوں کی سفارشات کو بھی ٹھینگا دکھایا جارہا ہے۔ پٹن میں کالج کے ایک نوجوان کو ریگنگ کے نام پر جس طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیااس نے اسے موت کی نیند سلا دیا۔ایسا نہیں ہے کہ ریگنگ کے خلاف عدالت کی سخت ہدایات اور فیصلے موجود نہ ہوں ، حکومتوں کو ریگنگ روکنے کیلئے سخت عدالتی ہدایات ہیں، لیکن جس طرح ریگنگ کے معاملے سامنے آرہے ہیں اس سے تشویش کا بڑھنا فطری ہے۔ سال 2009میں ہماچل کے ایک میڈیکل کالج میں ریگنگ کے باعث ایک طالب علم کی موت کے بعد سپریم کورٹ نے ملک کے تعلیمی اداروں میں اینٹی ریگنگ قانون کو سختی سے نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔جس کے تحت ملزم کے لئے سخت سزا یعنی تین سال کی قید اور جرمانہ کا بھی التزام ہے۔قصور وار طالب علم کو کالج یا ہاسٹل سے معطل یا برخاست کیا جاسکتا ہے۔
اسکالرشپ اور دیگر سہولتوں پر پابندی کے علاوہ اس کے امتحان دینے یا امتحان کے نتائج پر پابندی عائد کرنے کے علاوہ اس کے کسی اور جگہ پر داخلے سے متعلق پابندی لگائی جا سکتی ہے۔جبکہ ریگنگ کے معاملوں کو نظر انداز کرنے کے پاداش میں اس کالج کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے اور اس میں یہ بھی التزام کہ جس کالج میں ریگنگ ہو اس کالج کے خلاف جرمانہ عائد کرنے کے علاوہ اس کی منظوری منسوخ کرنے کی بھی گنجائش ہے ۔لیکن تعجب کی بات ہے کہ ان تمام ہدایات کے باوجود ملک میں ریگنگ کے معاملے تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور ناہی کسی قصوروار ادارے کے خلاف کبھی کوئی قانونی چارہ جوئی ہی کی گئی ۔یہی نہیں انسداد ریگنگ کے لئے راگھون کمیٹی اور کرشنن کمیٹی کی سفارشات بھی موجود ہیں ۔وہیںسپریم کورٹ کی جانب سے ملک کے ہر اعلیٰ تعلیمی ادارے میں ریگنگ کے خلاف کمیٹی بنانے سے لے کر متعلقہ قوانین پر عمل نہ کرنے پر ادارے کی منظوری منسوخ کرنے تک سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ وہیں عدالت عظمیٰ کے جسٹس اریجیت پاسائت، جسٹس ڈی کے۔ جین اور جسٹس مکندکم شرما کی بنچ نے پہلی بار 11 فروری 2009 کو ریگنگ کو روکنے کے لیے کافی سخت موقف اختیار کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ریگنگ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود ریگنگ کے معاملات میں اضافہ دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔تعارف کرانے کے نام پر تعلیمی اداروں میں برے انداز میں تشدد کا نشانہ بنانے کا چلن آج بھی قائم ہے۔جواس روایت پر پوری طرح سے روک لگائے جانے کیلئے اٹھائے گئے اقدامات پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔ طلبا کے ساتھ ریگنگ کے نام پر جسمانی اور ذہنی طور سے زیادتیاں اور تشدد کی خبریں اکثر آتی رہتی ہیں۔سینئرطلبا ان سے برا سلوک کرتے ہیں،ان کو ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں ۔بہت سے ظلم اور زیادتی کے شکار طلبا اس سلوک کو یاد رکھتے ہیں ،بھلا نہیں پاتے اس لئے کچھ طلبا نے خود کشی تک کرلی۔ کالجوں کو اس جانب خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔