حقوق انسانی کی پامالی ایک لمحۂ فکریہ

1

عباس دھالیوال

آج بھلے ہی اہلِ دنیا ترقی کے بڑے دعوے کرتے نہ تھکتے ہوں اور چاند پہ تسخیر پا منگل کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہوں. لیکن جہاں تک موجودہ دور میں ہمارے اخلاق و کردار کا تعلق ہے تو اس میں لگاتار زوال آتا دکھائی دے رہا ہے اس ضمن میں ایک شاعر نے اپنے الفاظ میں کیا خوب منظر کشی کی ہے کہ :
بڑھنے کو بشر چاند سے بھی آگے بڑھا ہے!
یہ سوچیے کردار گھٹا ہے کہ بڑھا ہے!
یوں تو دنیا کے مختلف ممالک میں انسانی حقوق کے خلاف سرزد ہونے والی خلاف ورزیوں کو لیکر گاہے بگاہے الگ الگ تجزیاتی رپورٹس آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ تاہم اس ضمن میں جو دو تازہ رپورٹس امریکہ کی طرف سے سامنے آئی ہیں وہ آجکل میڈیا میں بحث کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔
اس حوالے سے امریکی کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کی بات کریں تو دنیا کے مختلف ممالک میں مذہبی آزادی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے دراصل امریکی کمیشن یونائٹیڈ اسٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم کے اعداد و شمار نے انسانی حقوق کے محافظین کو پس و پیش و فکر میں مبتلا کر دیا ہے ۔
کمیشن کی مذکورہ رپورٹ میں امریکی محکمہ خارجہ سے جو سفارشات کی گئی ہیں وہ یقینا جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک اور خصوصاً ہم اہلِ وطن کے لیے تشویش کا باعث ہیں ۔ اس سے قبل گزشتہ سال بھی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے میں انتہائی تشویش والے ملکوں کی فہرست میں ڈالنے کی سفارش کی تھی، جس کو ایک بار پھر سے حالیہ رپورٹ میں دہرایا گیا ہے۔

دراصل 2021 کی اس تازہ رپورٹ میں بھارت سمیت 14 ملکوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کی حکومتیں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کو نظر انداز کرتی ہیں یا پھر ان میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں وہ 10 ممالک بھی درج ہیں جن کے خلاف 2020 کی رپورٹ میں سفارشات کی گئی تھیں۔ ان میں میانمار، چین، ارٹریا، ایران، نائیجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، بھارت، روس، شام اور ویتنام شامل ہیں۔

دراصل 2021 کی اس تازہ رپورٹ میں بھارت سمیت 14 ملکوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک کی حکومتیں انسانی حقوق کی منظم خلاف ورزی کو نظر انداز کرتی ہیں یا پھر ان میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ان میں وہ 10 ممالک بھی درج ہیں جن کے خلاف 2020 کی رپورٹ میں سفارشات کی گئی تھیں۔ ان میں میانمار، چین، ارٹریا، ایران، نائیجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، بھارت، روس، شام اور ویتنام شامل ہیں۔
ہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں ہمارے تعلق سے کہا گیا ہے کہ ہمارے یہاں مذہبی آزادی کی صورت حال منفی سمت کی طرف گامزن ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں برسرِ اقتدار پارٹی نے ہندو قوم پرست پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جس کے نتیجے میں منظم انداز میں مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی رپورٹ میں شہریت کے ترمیمی قانون، سی اے اے کی منظوری اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں بھارت میں کورونا وبا کے آغاز پر مذہبی اقلیتوں کے خلاف جو ایک منصوبہ بند طریقہ سے گمراہ کن اور نفرت انگیز مہم چلائی گئی اس کا بھی ذکر ہے۔ رپورٹ میں بابری مسجد انہدام کے ملزموں کو عدالت سے بری کیے جانے کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت اپنے خلاف بولنے والوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور ان کے خلاف غداری کی دفعات کے تحت مقدمات قائم کیے جاتے ہیں۔ کمیشن کی رپورٹ میں مبینہ لو جہاد کا بھی ذکر ہے جس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دیش کی کئی ریاستوں میں بین المذاہب شادیوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔
دریں اثنا ادھر جمہوریت پر تحقیق کرنے والا ادارہ ’فریڈم ہاؤس‘، جو کہ ایک آزاد غیر سرکاری ادارہ ہے لیکن اسے امریکی حکومت کی طرف سے مالی امداد مہیا کروائی جاتی ہے‘ اس کی طرف سے ایک تجزیاتی رپورٹ میں دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکی محکمۂ خارجہ کی اس رپورٹ میں چین، ایران، روس، میانمار اور بیلاروس سمیت متعدد ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال پر اظہارِ تشویش کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ نے چین کے صوبہ سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے صورت حال کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے شام کے باشندوں سے کیے جانے والے سلوک اور یمن کی جنگ سے پیدا ہونے والی انسانی حقوق کی تباہ کن صورت حال کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔
رپورٹ میں روسی حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیوالنی جیسے سیاسی مخالفین سمیت پر امن مظاہرین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات، وینیزویلا کے لیڈر نکولس میڈورو اور ان کے اہم ساتھیوں کے کرپشن، کیوبا، نکارا گوا، ترکمانستان اور زمبابوے کی حکومتوں کی جانب سے سیاسی تقریروں پر لگائی گئی پابندیاں کا ذکر بھی تفصیل سے امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
جبکہ اس رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ضمن میں بھارت اور پاکستان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مذکورہ دونوں پڑوسی ممالک میں اذیت اور بے رحمی کے واقعات، غیر انسانی اور اہانت آمیز سلوک اور سزائیں دینا مشترک رہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں میں ہی اظہار رائے کی آزادی، پریس اور انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں، صحافیوں کے خلاف تشدد، انہیں غیر قانونی طور پر گرفتار کرنے اور غائب کر دینے، سینسر شپ اور ویب سائٹوں کو بلاک کر دینے کا سلسلہ جاری رہا۔
وہیں اگر ہم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کریں تو گزشتہ سال اس سلسلے میں امریکہ کئی مسائل کو لے کر دنیا میں سرخیوں میں رہا ہے، اس ضمن میں ایک تو جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد جس طرح سے وہاں نسلی فسادات کی آگ بھڑکی اس سے امریکہ کو دنیا بھر میں شرمندگی اٹھانی پڑی۔ وہیں دوسری طرف 2021 کی شروعات یعنی جنوری کے آغاز میں جس طرح سے ٹرمپ حامیوں نے کیپٹل ہل پہ دھاوا بولا اور اپنے ملک کی لیڈرشپ کو یرغمال بنانے کی کوشش کی، اس سے بھی امریکہ کی صدیوں پرانی جمہوری روایات نہ صرف تار تار ہوئی بلکہ اس واقعہ نے دنیا کے سامنے اس کے کھوکھلے پن اور مکھوٹے کو بے نقاب کیا۔
کل ملا کر آج بھلے ہی ہم خود کو کتنے ترقی یافتہ ممالک کہلاتے ہوں یا پھر کتنے ہی انسانی حقوق کے علمبردار و پرستاروں میں شمار کر بڑی بڑی ڈینگیں مارتے پھریں ، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دراصل مادہ پرستی کے اس دور میں ہم سب کی ذہنیت ایک بن چکی ہے چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا پھر ترقی پذیر ہر کوئی اپنے مفاد کی خاطر حقوقِ انسانی کی روح کو مسمار کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔ اگر ہم انسانوں کا اسی طرح سے استحصال کرتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے تمام ترقی کے دعوے بے معنی اور بے سود ہیں…اور یہ سب ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے..!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

1 COMMENT

  1. Bahut umda article hai. Aaj k daur mein insaniyat ka fuqdan har taraf dikhai deta hai..
    INSAN HO TO PYAR MEIN DHALNA BHI SEEKH LO
    GIRNEY SE PAHLE UTTHO SANBHALNA BHI SEEKH LO
    TUM BAAD MEIN BASANA KISI CHANDRLOK KO
    DHARTI PE PAHLE THEEK SE CHALNA TO SEEKH LO.
    (BEKAL UTSAHI)

Comments are closed.