تاخیری انصاف کے متاثر ین معاوضے کے حق دار: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

اگر کسی شخص کو کوئی مضرت پہنچی ہو، اسے کوئی نقصان ہوا ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کا یہ حق ہے کہ فریق ثانی اس کے نقصان کو پورا کرے اور اس کا جو حق تلف ہوا ہے وہ حق اس کو ملے۔ دراصل اسی کا نام انصاف ہے۔ انصاف اس طرح کیا جانا چاہیے کہ متاثرہ شخص کو اس بات کا مکمل اطمینان ہوجائے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ عدل و انصاف ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے اور اگر بنیاد ہی ہل جائے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا، دوسری بات یہ ہے کہ انصاف ملنا، انصاف کرنا یا انصاف دلانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انصاف بروقت ملنا چاہیے۔ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے (Justice delayed is justice denied) یعنی انصاف نہ ملنے کے برابر ہے۔ جہاں تک ممکن ہو اس کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ بعض اوقات انصاف میں تاخیر سے انصاف پانے کی جو غرض ہے وہی باقی نہیں رہ جاتی، تو اسے سراسر ناانصافی (Torture of Justice) کہنا غلط نہ ہوگا اور ایسی صورت میں خواہ آئین ہو یا دیگر قوانین ان کی جو بھی توضیعات انصاف رسانی سے متعلق کی گئی ہیں، اس کے لیے بے معنی ہوجائیں گی۔

اگرکئی دہائیوں تک مقدمہ چلتا رہے اور ملزم یا ملزمین جیل کی صعوبتیں اٹھاتے رہیں اور ایک طویل مدت کے بعد انہیں رہا کر دیا جائے،اگر رام ویر کی جگہ راج ویر پر17 سال تک مقدمہ چلتا رہے اور وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہے،اگر قتل عمد کے معاملے میں 41 سال مقدمہ چلتا رہے اورمبینہ قاتل رہا ہو جائے،اگر قتل کے زیر سماعت مقدمے میں متوفی کی نعش کی شناخت بھی ہو جائے مگر کچھ عرصے بعد مبینہ متوفی زندہ عدالت کے روبرو پیش ہوجائے،اگر کوئی ضعیف شخص جسے سانس کی تکلیف ہے،اپنے تین بچوں کے ساتھ ایک کمرے میں رہتا ہے جہاں تاریکی ہی تاریکی ہے، نہ دھوپ آتی ہے نہ ہوا اور اس کے چار کمروں پر کرایہ دار قابض ہیں اور وہ شخص عدالت میں اپنے کرایہ داروں کے خلاف بے دخلی کا مقدمہ دائر کرتا ہے اور دس سال تک بھی اس مقدمے کا نچلی عدالت میں یا کسی بھی فریق کے ذریعہ اپیل کیے جانے پر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں فیصلہ نہیں ہوپاتا اور اس شخص کی موت ہوجاتی ہے،اگر کسی کو اس پر ملک مخالف کارروائی کی بنیاد پر سالوں جیل میں رکھا جاتا ہے اور اسے ضمانت بھی نہیں ملتی اور بعد میں رہا کر دیا جاتا ہے، تو کیا یہ لوگ یا ان کے وارثین معاوضتی انصاف کے حقدار نہیں، جیسا کہ مختلف قوانین میں اس طرح کے التزامات موجود ہیں۔مثال کے طور پر*اگر ایک شخص کسی ٹریفک حادثے میں زخمی ہو جائے اور یہ حادثہ دوسرے شخص کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو، تو متاثرہ شخص کو علاج کے اخراجات، آمدنی کا نقصان اور دیگر تکالیف کا معاوضہ دیا جانا چاہیے۔ اگر کسی ملازم کو بغیر وجہ کے نوکری سے نکال دیا جائے تو اسے قانونی طور پر مالی معاوضہ دیا جاسکتا ہے۔

انصاف کی مختلف اقسام ہیں،ان میں ایک قسم معاوضتی انصاف بھی ہے۔ اس تصور کا بنیادی مقصد ان افراد کو معاوضہ فراہم کرنا ہے جو کسی دوسرے کے عمل یا لاپروائی کی وجہ سے نقصان یا تکلیف کا شکار ہوتے ہیں۔ معاوضتی انصاف کا مطلب ہے کسی متاثرہ فرد کو ایسا مالی یا قانونی معاوضہ فراہم کرنا جو اس کو ہونے والے نقصان یا تکلیف کی تلافی کرسکے۔یہ نقصان ذہنی اذیت، تکلیف، یا وقار کی توہین کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے۔یہ انصاف کا وہ پہلو ہے جو متاثرہ فرد کی بحالی پر توجہ دیتا ہے۔صرف متاثرین کو ہی معاوضہ دینا کافی نہیں بلکہ ان لوگوں کو بھی سزادی جائے جنہوں نے جھوٹے مقدمے قائم کیے ہوں۔ بعض اوقات قصوروار فریق کو بھی سخت سزا دینے کے لیے اضافی رقم بطور جرمانہ دینا پڑتی ہے۔ اسلامی قانون میں بھی معاوضتی انصاف کو اہم مقام حاصل ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ نقصان کی تلافی کرے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر کسی کی جائیداد یا جسم کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اس نقصان کی تلافی کرے۔

دنیاکے مختلف ممالک میں معاوضتی انصاف کے قوانین موجود ہیں لیکن ان میں سے بیشتر میں انصاف میں تاخیر کے معاملے میں معاوضہ دینے کی بات شامل نہیں کی گئی ہے۔ اگر معاوضے کے لیے کوئی مخصوص قانون نہ ہو توٹارٹ قانون کے تحت مالی یا جسمانی نقصان کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طر ح قانون محنت میں بھی ملازمین کو غیر قانونی برطرفی یا ہراسانی پر معاوضہ دینے کی دفعات شامل ہیں۔ موٹر وہیکل ایکٹ کے تحت اگر کوئی سڑک حادثے میں زخمی یا ہلاک ہوجائے تو اس کے لواحقین کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ کمپنیز ایکٹ کے تحت اگر کسی کمپنی کی لاپروائی سے عوام کو نقصان پہنچے تو قانونی کارروائی ہوسکتی ہے۔

معاوضتی انصاف ایک ایسا قانونی اور اخلاقی اصول ہے جو نہ صرف متاثر افراد کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے بلکہ معاشرے میں ایک مثبت پیغام بھی دیتا ہے کہ کسی کا نقصان کرنے والا شخص یا ادارہ بے خبر نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اس اصول کو قانونی حیثیت دے کر اپنے انصاف کے نظام کو مضبوط کیا ہے۔ امریکہ اور یوروپی ممالک میں معاوضتی انصاف کا جامع نظام موجود ہے۔ چین میں بھی معاوضتی انصاف کا تصور رائج ہے۔ترقی پذیر ممالک میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی آگاہی، قانون کی عملداری اور عدالتی نظام کو بہتر بنا کر معاوضتی انصاف کو عملی شکل دی جائے۔

فیصلوں میں تاخیر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سب سے بڑا ثبوت ہے، کیوں کہ ہر انسانی حق کی بنیاد انصاف پر ہے۔ آج ہندوستان میں ہی ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور نچلی عدالتوں میں لاکھوں معاملے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے زیر سماعت ہیں یا یہ کہ ان کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ بروقت فیصلہ نہ ہونا ناانصافی کا سب سے بڑا ثبوت ہے اور امریکہ کے سپریم کورٹ کے ایک جج نے کہا تھا کہ ناانصافی کا احساس ایک ایسا احساس ہے جس کی چبھن یا کسک دل میں سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ ناانصافی نے بہت سی تحریکوں کو جنم دیا ہے اور ترقی پذیر جمہوری نظام اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ جمہوریت میں خواہ کتنی بھی خامیاں ہوں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس میں انسانی حقوق کے تحفظ اور انصاف رسانی کی زیادہ سے زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔چونکہ ہمارے ملک میں انصاف میں تاخیر اور ناانصافی کے واقعات میں برابر اضافہ ہورہا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ متاثرین کو معاوضتی انصاف کی فراہمی اور نا انصافی کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے لیے جلد از جلد کوئی قانون بنایا جائے یا موجودہ بھارتیہ نیائے سنہتا میں اس ضمن میں ضروری التزامات شامل کیے جائیں۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
amkhwaja2007@yahoo.co.in

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS