گلوان وادی سے آخرکار ’سیزفائر‘ کی خبر آہی گئی۔ جمعرات کو وزیرخارجہ ایس جے شنکر کی اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے بعد دونوں ملک ایل اے سی پر چل رہے تناؤ کو کم کرنے کے لیے متفق ہوگئے۔ حالاں کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اتفاق صرف اصولی ہے یا پھر اس کا کوئی روڈمیپ بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس فرق کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ اصولی معاہدہ کا کیسا ’براحال‘ ہوتا ہے، اسے ہم نے حالیہ دنوں میں کئی مواقع پر دیکھا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس معاہدہ کی بنیاد بنا ہے ایک پانچ نکاتی فارمولہ جس کے زیادہ تر التزام دلچسپ طور پر 6دہائی پہلے ہوئے پنچ شیل سمجھوتے سے کافی ملتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس میں ایسا کچھ نیا نہیں ہے جو باہمی تاریخ کو بدل سکے۔ ویسے تاریخ کا ایک سیاہ پہلو یہ بھی ہے کہ 1954کے اس معاہدے پر چین کا صبر صرف آٹھ سال میں ہی ٹوٹ گیا اور 1962میں اس نے دھوکہ سے ہماری پیٹھ میں ہی خنجر گھونپ دیا۔
’62کی کیا بات کریں، گزشتہ سال ہی وزیراعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد عزم لیا گیا تھا کہ دونوں ممالک کے آپسی اختلافات کو کسی نئے تنازع میں بدلنے نہیں دیا جائے گا۔ اتنا پیچھے بھی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو ماہ پہلے ہی ہمارے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے چین کے انہی وزیرخارجہ کے ساتھ ایک ایمرجنسی میٹنگ کی تھی۔ تب بھی دونوں جانب سے سرحد پر کشیدگی کم ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی، لیکن ہوا یہ کہ اب وزیردفاع سے لے کر وزیرداخلہ تک کو محاذ سنبھالنا پڑا ہے۔ شاید یہ پرانے تجربات کا ہی اثر ہے کہ چار ماہ سے چلے آرہے تنازع میں صلح کی نئی کھڑکی کھلنے کے باوجود کوئی اسے آپسی رشتوں میں تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح نہیں دیکھ رہا ہے۔ ویسے بھی اس میں ہمارے نظریہ سے اہم- اپریل ماہ سے پہلے والی حالت کو بحال کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ لگایا جائے کہ دونوں جانب سے جو فوجی جہاں بیٹھے ہیں وہ فی الحال وہیں ڈٹے رہیں گے۔ جن باتوں پر اتفاق ہوا بھی ہے اس سے متعلق کوئی ڈیڈلائن بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ تو ایسے میں تنازع کیسے اور کب سلجھے گا، یہ طے نہیں ہے۔ ایسے میں اس میٹنگ سے ہمیں ایسا کیا حاصل ہوا جو وزیردفاع کی میٹنگ میں چھوٹ گیا تھا؟ جس وقت ماسکو میں دونوں وزرائے داخلہ مل رہے تھے، تبھی ایل اے سی پر بریگیڈیئر سطح کی بات چیت بھی ہوئی۔ لیفٹیننٹ جنرل یا کورکمانڈر سطح پر بھی کئی دور کی بات چیت ہوچکی ہے لیکن تنازع جوں کا توں ہے۔ ہندوستان کے لحاظ سے ہم اسے ایک سفارتی فتح ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہماری فوجی اور سیاسی قیادت کی مسلسل کوششوں سے ہم مسلسل جارحانہ بنے ہوئے چین کو بات چیت کی ٹیبل پر لانے میں کامیاب رہے ہیں۔ وزیردفاع والی ملاقات کے معاملہ میں تو پہل خود چین کی طرف سے ہی ہوئی تھی۔ لیکن ان سب باتوں کی اہمیت اس بات پر آکر محدود ہوجاتی ہے کہ چین بار-بار زبان دینے کے باوجود اپنے فوجیوں کو پیچھے نہیں ہٹارہا ہے۔ پی ایل اے ایک محاذ بند کرتی ہے، اس سے پہلے دوسرا محاذ کھول لیتی ہے۔ اس سب کے دوران صلح کیسے ہوگی، یہ بڑا سوال ہے۔ تمام سطح کی بات چیت کے بعد اب آخری راستہ دونوں ممالک کے سربراہوں کی ملاقات کا ہی بچا ہے۔ چین کے سرکاری اہم اخبار گلوبل ٹائمس نے وزرائے خارجہ کی میٹنگ پر اپنی رپورٹ میں اس کا اشارہ بھی کیا ہے کہ ان کے صدر شی جن پنگ اور ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ بیٹھے بغیر یہ تنازع ختم نہیں ہوگا۔ کشیدگی برقرار رکھنے کے پیچھے چین کی منشا بے حد صاف ہے۔ دراصل چین اس وقت نہ صرف اپنی سرحدوں کی توسیع کررہا ہے، بلکہ اس خطہ میں اپنے فوجی اور معاشی دبدبے کو بڑھانے کی بھی سازش رچ رہا ہے۔ جنوبی بحیرئہ چین میں اس کی جارحانہ سرگرمیوں اور امریکہ اور جاپان کے ساتھ تنازع اس کا صرف ایک نمونہ ہے۔ لیکن اس سب کے دوران ہندوستان کا امریکہ کے نزدیک جانا اور ہاؤڈی مودی اور نمستے ٹرمپ جیسی تقریبات نے چین کی سوچ میں ہندوستان کے تعلق سے کھوٹ کو بڑھا دیا ہے۔ چین ہندوستان کو اپنے پڑوس میں امریکہ کے پراکسی کی نظر سے دیکھتا ہے۔
بحرہند میں حال میں امریکہ کے ساتھ ہوئے ہندوستان کی اعلیٰ سطحی بحری مشقوں کو بھی چین نے خود کے لیے چیلنج سمجھا ہے۔ دراصل بحرہند کا چین کے لیے اسٹریٹجی کے ساتھ ہی بڑی کاروباری اہمیت بھی ہے۔ چین کی 80فیصد تیل کی ضرورت ملکّا کی خلیج کے راستہ سے پوری ہوتی ہے جو جنوبی بحیرئہ چین کو بحرہند سے جوڑتی ہے۔ چین چاہتا ہے کہ یہ راستہ ہمیشہ کھلا رہے تاکہ اس علاقہ میں اس کی سرگرمیاں بلاتعطل جاری رہیں، لیکن اسٹریٹجی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ہندوستان جب چاہے، تب اس علاقہ میں اس کی آمدورفت میں رخنہ ڈال سکتا ہے۔ ظاہری طور پر ایسے حالات میں ہند-امریکہ میں مشترکہ بحری مشقوں کو لے کر چین میں گھبراہٹ ہے۔ اس لیے اس خدشہ کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا کہ ایل اے سی پر جھگڑا بڑھا تو سمندر میں بھی آگ لگ سکتی ہے۔
گلوان کا واقعہ گزشتہ تنازعات سے اس معنی میں بھی الگ ہے کہ یہ کسی ایک علاقہ تک محدود نہیں ہے، بلکہ مشرقی لداخ کی سرحد پر کئی محاذ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی توسیع کو دیکھ کر یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ چوکیوں پر تعینات فوجیوں کی عام جھڑپ نہیں، بلکہ چینی حکومت میں اعلیٰ سطح پر بنائے گئے منصوبہ کا حصہ ہے۔ اس لیے اعلیٰ سطح سے ہری جھنڈی نہیں ملنے تک تنازع بھی سلگتا رہے گا۔ اس کی تمام وجوہات میں ایک وجہ گزشتہ سال آرٹیکل370ہٹانے کا حکومت ہند کا وہ فیصلہ بھی ہے، جس نے جموںو کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرتے ہوئے اسے جموں و کشمیر اور لداخ کی دو مرکز کے زیرانتظام ریاستوں میں تبدیل کردیا ہے۔ ہندوستان کے اس فیصلے سے ایل اے سی پر اپنی طاقت بڑھانے کے چین کے منصوبوں کو جھٹکا لگا ہے جس کا نتیجہ مشرقی لداخ کی سرحد پر اس کی بڑھی ہوئی جارحیت میں نظر آتا ہے۔ دراصل ہندوستان دربک-شیوک اور دولت بیگ-اولڈی کو جوڑنے کے لیے جو فیڈر روڈ بنا رہا ہے، اس نے چین کی نیند اڑا رکھی ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ اس سڑک کے بن جانے سے ہندوستان کے لیے نہ صرف ایل اے سی پر تعینات اپنے فوجیوں تک رسد اور فوجی سامان پہنچانا آسان ہوجائے گا، بلکہ اس سے ہندوستان کو گلوان وادی اور اکسائی چین کی اسٹرٹیجک بڑھت بھی حاصل ہوجائے گی۔ پی او کے سے متصل یہ علاقہ چین-پاکستان اکنامی کوریڈور کے بھی کافی قریب ہے۔ چین کو اندیشہ ہے کہ اس علاقہ تک ہندوستان کی پہنچ بن جانے سے اس کوریڈور میں اسے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کو لے کر کمپرومائز ایپروچ اپنانی پڑسکتی ہے، جس سے اس کی خواہشات بیلٹ اینڈ رو ڈ انیشیٹو کو جھٹکا لگ سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 1962میں ہتھیائے گئے اکسائی چین کے مستقبل کو لے کر بھی چین میں گھبراہٹ ہے۔ حالاں کہ داؤ پر اتنا کچھ لگنے کے باوجود ان خدشات میں دم نظر نہیں آتا کہ تنازع جنگ کی شکل اختیار کرے گا۔ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ ہانگ کانگ اور امریکہ سے مل رہے معاشی چیلنجز کے مسئلہ کو سلجھانے کے مقابلہ ایل اے سی پر کشیدگی کو برقرار رکھنا چین کو زیادہ فائدہ مند سودا نظر آرہا ہے۔ ویسے بھی اکتوبر میں چین میں سینٹرل کمیٹی کی میٹنگ ہونی ہے۔ ایل اے سی پر کشیدگی کی آڑ میں شی جن پنگ ملک میں قومی جذبات بھڑکا کر اپنی پوزیشن مضبوط بنائے رکھنا چاہیں گے۔ لیکن وہ جنگ کا خطرہ کسی بھی قیمت پر مول نہیں لینا چاہیں گے، کیوں کہ جنگ کے میدان میں ذرا بھی اونچ نیچ ان کی کرسی کو ہلا سکتی ہے۔ اس دوران اگر وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات ہوتی ہے اور صلح کی کوئی سڑک تیار ہوتی ہے تو یہ جن پنگ کے لیے اپنے عوام کے ساتھ ہی دنیا کے سامنے بھی اپنی شبیہ چمکانے کا بہترین موقع بن سکتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)