نائب صدر کا اچانک استعفیٰ: پس پردہ حقائق اور امکانات: پروفیسر عتیق احمد فاروقی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

ملک کے سیاسی منظرنامے پر اس وقت شدید گہماگہمی دیکھی جا رہی ہے جب موجودہ نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے مانسون اجلاس شروع ہوتے ہی اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اگرچہ بظاہر انہوں نے اپنی خراب صحت کو اس فیصلے کی وجہ بتایا ہے، لیکن اس وضاحت کو قبول کرنے والے حلقے بہت محدود ہیں۔ درحقیقت، ان کا یہ اقدام کئی سیاسی اور آئینی سوالات کو جنم دے چکا ہے اور خود حکومت و اپوزیشن خیموں میں اس کے دور رس اثرات پر غور و خوض جاری ہے۔دھن کھڑ نے 21 جولائی کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کے نام ایک خط میں اپنے استعفیٰ کی اطلاع دی، جسے فوراً قبول بھی کر لیا گیا۔ ان کے مطابق، ڈاکٹروں کی رائے اور اپنی ذاتی صحت کو ترجیح دینے کے پیش نظر وہ اب اس اہم آئینی عہدے پر کام جاری رکھنے کے اہل نہیں۔ ان کے اس مؤقف کا احترام کیا جا سکتا ہے، مگر ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ قدم قدرے غیر متوقع محسوس ہوتا ہے۔ دھن کھڑ نے کچھ روز قبل تک مختلف تقاریب میں شرکت کی، ان کی نقل و حرکت فعال نظر آئی اور ان کے چہرے پر کوئی غیر معمولی پریشانی یا کمزوری کے آثار دکھائی نہ دیے۔

یہ بھی قابل غور ہے کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ کی مثالیں نہایت کم ہیں۔ بی ڈی جتی اور آر وینکٹ رمن وہ دو شخصیات تھیں جنہوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے لیے نائب صدارت سے استعفیٰ دیا تھا۔ دھن کھڑ کا معاملہ ان سے مختلف ہے کیونکہ نہ تو انہوں نے کسی صدارتی مہم کا اعلان کیا اور نہ ہی کسی نئے سیاسی ہدف کی طرف اشارہ دیا۔ بلکہ انہوں نے جس وقت استعفیٰ دیا، وہ پارلیمنٹ کے انتہائی حساس مانسون اجلاس کا آغاز تھا، جہاں حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے تھے۔دھن کھڑ کا استعفیٰ اس وقت آیا جب پارلیمان میں جسٹس ایس مرلی دھر کے خلاف ایک تجویز پر بحث متوقع تھی۔ راجیہ سبھا کے چیئرمین ہونے کے ناطے، انہوں نے لوک سبھا سے موصولہ نوٹس کو قبول کیا تھا، جسے اپوزیشن نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا مؤقف تھا کہ یہ کارروائی ضابطے کے خلاف ہے، کیونکہ اگر دونوں ایوانوں میں تجویز آتی ہے تو پہلے اسے اس ایوان میں زیر بحث لایا جانا چاہیے جس میں وہ پہلے پیش کی جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تنازع ان کے استعفیٰ کا ایک اہم پس منظر ہو سکتا ہے۔اس دوران کانگریس کے سینئر لیڈر ملکارجن کھرگے کی جانب سے 18 جولائی کو ’’آپریشن سندور‘‘ پر حکومت پر تنقید کی گئی اور اس سلسلے میں اگلے ہفتے کی بحث کی بھی تیاری کی گئی تھی۔ ایسے میں امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دھن کھڑ ان سیاسی تناؤ اور آئندہ ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے کنارہ کشی اختیار کرگئے ہوں۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جگدیپ دھن کھڑ کا مزاج ہمیشہ جارحانہ رہا ہے۔ مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے ان کے ریاستی حکومت سے تعلقات کشیدہ رہے۔ بطور نائب صدر بھی وہ عدلیہ، آئین اور سناتن دھرم جیسے موضوعات پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے رہے۔ وہ اکثر اپوزیشن کے ساتھ سخت لہجے میں بات کرتے دکھائی دیے اور راجیہ سبھا میں ان کے طرزِ صدارت کو لے کر بھی کئی مرتبہ سوالات اٹھے۔اگر ان کی صحت واقعی اتنی بگڑ چکی تھی تو وہ مارچ 2025 میں ایمس میں داخلے کے وقت یا جون میں کمائیوں یونیورسٹی کی تقریب میں بے ہوش ہونے کے بعد ہی استعفیٰ دے سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا، بلکہ اپنے عہدے پر کام کرتے رہے۔ ایسے میں محض صحت کا حوالہ دے کر استعفیٰ دینا کئی حلقوں کو مطمئن نہیں کر پایا۔ اسی وجہ سے سیاسی پنڈت اس فیصلے کو صحت سے زیادہ حکمت عملی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔

جگدیپ دھن کھڑ کو 2022 میں نائب صدر منتخب کیا گیا تھا اور ان کے انتخاب کو اس وقت بی جے پی کی جانب سے ایک غیر متوقع مگر حکمت آمیز چال کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ دھن کھڑ کا تعلق جاٹ برادری سے ہے اور انہیں ایک صاف گو، راست گو اور سخت گیر شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان کا استعفیٰ بی جے پی کے اندرونی حلقوں میں بھی بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ کیا ان کے بیانات یا رویے پارٹی لائن سے متصادم ہوگئے تھے؟ کیا ان کے نظریاتی رجحانات نے پارٹی کو غیرمحفوظ کر دیا تھا؟ یہ سوالات تاحال جواب طلب ہیں۔

دھن کھڑ کے استعفیٰ کے بعد راجیہ سبھا کی صدارت کی ذمہ داری فی الحال نائب چیئرمین ہری ونش کو سونپی گئی ہے۔ وہ تجربہ کار رکن ہیں اور امید ہے کہ وہ ایوان کی کارروائی کو متوازن انداز میں چلائیں گے۔ مگر اب اصل سوال یہ ہے کہ نائب صدر کے عہدے کے لیے اگلا چہرہ کون ہوگا؟کچھ نام میڈیا اور سیاسی حلقوں میں گردش کر رہے ہیں، جن میں بہار کے گورنر عارف محمد خان، کانگریسی رہنما ششی تھرور جیسے افراد شامل ہیں۔ تاہم بی جے پی کے گزشتہ فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قیاس بھی کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کا انتخاب کرے گی جو نہایت کم شہرت رکھتی ہو، لیکن سیاسی طور پر موزوں ہو۔ ممکن ہے کہ قبائلی، دلت یا اقلیتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت اس عہدے کے لیے منتخب کی جائے تاکہ سیاسی توازن اور انتخابی فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

جیسے دروپدی مرمو کے انتخاب کے وقت ان کی قبائلی شناخت کو ترجیح دی گئی تھی، ویسے ہی اب کسی خاص طبقے یا خطے کی نمائندگی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ بعض مبصرین کا ماننا ہے کہ بی جے پی ایسی حکمت عملی اپناتی ہے جس سے وہ سیاسی سطح پر کئی مورچوں پر برتری حاصل کرسکے اور نائب صدر کا انتخاب بھی اسی انداز میں کیا جائے گا۔دھن کھڑ کے استعفیٰ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ آج کے دور میں آئینی عہدے دار بھی سیاسی دباؤ اور نظریاتی کشمکش سے بچ نہیں پاتے۔ ایسے میں آئندہ نائب صدر کے لیے یہ ایک چیلنج ہوگا کہ وہ نہ صرف آئینی غیر جانبداری کو برقرار رکھے بلکہ ایوان کی کارروائی کو تمام سیاسی جماعتوں کے اعتماد کے ساتھ چلائے۔ پارلیمنٹ جیسے ادارے کی حرمت اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب اس کے نگراں خود آئین کے محافظ اور دستور کے وفادار ہوں۔

یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دھن کھڑ کا استعفیٰ بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا یا کسی حقیقی داخلی تضاد کا نتیجہ۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ اس فیصلے نے حکومت اور اپوزیشن، دونوں کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے نائب صدر کے طور پر کون سی شخصیت سامنے آتی ہے اور وہ کس طرح اس باوقار منصب کو سنبھالتی ہے۔

atiqfaruqui001@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS