قیمتی تعلیم یا مہنگا کاروبار؟

0

تعلیم کو ہمیشہ ایک ایسی نعمت مانا گیا ہے جو انمول ہوتی ہے، یعنی ایسی جس کی کوئی قیمت نہ لگائی جاسکے۔ مگر آج کے ہندوستان میں، خاص طور پر دہلی اور مغربی بنگال جیسے صوبوں میں،یہ انمول تعلیم ایک مہنگا سودا بن چکی ہے۔ جو والدین کبھی اس بات پر نازاں تھے کہ ان کے بچے ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہیں،اب اسی تعلیم کے بوجھ تلے کچلے جا رہے ہیں۔ ایک طرف سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت ہے تودوسری طرف پرائیویٹ اداروں کا بے لگام تجارتی رویہ۔

مغربی بنگال میں گزشتہ کئی برسوں سے والدین کی چیخ و پکار جاری ہے۔ 2021 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ حکومت نجی اسکولوں کی خودمختاری میں مکمل مداخلت نہیں کر سکتی،لیکن فیسوں کو قابو میں رکھنے کیلئے مناسب ضابطے ضرور بنا سکتی ہے۔ 2017 میں ریاست کی وزیراعلیٰ نے وعدہ کیا کہ ایک سیلف ریگولیٹری کمیٹی قائم کی جائے گی اور 2022 میں بل لانے کا اعلان ہوا۔ 2023 میں ’پرائیویٹ اسکول ریگولیٹری کمیشن‘ کے قیام کی اصولی منظوری دی گئی۔ مگر نتیجہ اب تک صفرہے۔ والدین آج بھی چیخ چلارہے ہیں مگر ان کی کوئی بات سنی نہیں جارہی ہے۔ اسکول من مانے انداز میں اپنی فیس بڑھا رہے ہیںاور حکومت کاغذی بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔

ایک حالیہ سروے،جس میں ملک کے 309 اضلاع سے 31,000 والدین شامل تھے،نے اس نظام کی قلعی کھول دی۔ 44 فیصد والدین نے بتایا کہ نجی اسکولوں نے گزشتہ تین برسوں میں فیس میں 50 سے 80 فیصد تک اضافہ کیا ہے،جب کہ 8 فیصد نے کہا کہ یہ اضافہ 80 فیصد سے بھی زیادہ رہا ہے۔ یہ اعداد و شمار کوئی عام شکایت نہیں،بلکہ تعلیم کے نام پر کھلی لوٹ مار کی ایک جیتی جاگتی شہادت ہیں۔ لیکن اس صورتحال کو حکومتیں جان بوجھ کر نظرانداز کر رہی ہیں اور پرائیویٹ اسکول پوری ڈھٹائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

دہلی میں تو معاملہ اس سے بھی آگے نکل چکا ہے۔ ڈی پی ایس جیسے معروف اسکولوں کے خلاف والدین سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ والدین کا الزام ہے کہ جنہوں نے فیس میں حالیہ اضافے کی مخالفت کی،ان کے بچوں کو ہراساں کیا گیا،یہاں تک کہ انہیں کلاسز میں بیٹھنے سے روک کر لائبریری میں بٹھایا گیا۔ کیا یہ تعلیم ہے یا انتقام؟ کیا یہ اسکول ہے یا کسی فسطائی کاروباری گروہ کا دفتر؟

دہلی کے موجودہ وزیر تعلیم آشیش سود نے سابقہ حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے اسکولوں کو من مانی فیس بڑھانے کی کھلی چھوٹ دی تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ تمام 1,677 نجی اسکولوں کا آڈٹ کیا جائے گا اور 10 دنوں میں نتائج عام کیے جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گزشتہ دس برسوںمیں ہر سال صرف 75 اسکولوں کا آڈٹ کیوں ہوا؟ محکمہ تعلیم کو ہر مالی سال میں کم از کم ایک بار ہر تسلیم شدہ اسکول کا معائنہ کرنا چاہیے، لیکن اس قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ یہی نہیں،زمین کی الاٹمنٹ کی بنیاد پر فیسوں میں اضافے کیلئے محکمہ تعلیم کی پیشگی منظوری ضروری ہے،مگر اس قاعدے کو بھی مسلسل نظرانداز کیا گیا۔

یہ محض نااہلی نہیں،بلکہ مجرمانہ غفلت ہے۔ حکومتیں جان بوجھ کر نجی اسکولوں کو لوٹ مار کا لائسنس دے رہی ہیں۔ ایک طرف وہ والدین کو دلاسے دیتی ہیں،دوسری طرف نجی اداروں کو مکمل آزادی دیتی ہیں کہ وہ جو چاہیں،کریں۔ اس دوغلے پن کا خمیازہ والدین اور طلبا بھگت رہے ہیں۔

پرائیویٹ اسکولوں کی دلیل یہ ہے کہ تعلیمی مواد، انفرااسٹرکچر اور اساتذہ کی تنخواہیں بڑھ گئی ہیں،اس لیے فیسیں بھی بڑھانا ناگزیر ہے۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو پھر فیس کے اضافے کی تفصیلات شفاف انداز میں والدین کو کیوں نہیں دی جاتیں؟ کیوں ہر سال صرف ایک نوٹس کے ذریعے ان پر بوجھ ڈال دیا جاتا ہے؟ تعلیم اگر تجارت بن جائے تو انصاف، مساوات اور مواقع کی امید عبث ہے۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ والدین اپنی محدود آمدنی کے باوجود ان اسکولوں کی فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ سرکاری اسکولوں کی حالت خستہ ہے۔ بدانتظامی، بدعنوانی اور تعلیمی معیار کی کمی نے انہیں غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ تعلیم کے نام پر دو انتہائیں سامنے آتی ہیں: ایک طرف پرائیویٹ اسکولوں کی سرمایہ دارانہ ہوس ہے تو دوسری طرف سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی۔ ان دونوں کے بیچ ہندوستان کا متوسط اور نچلا طبقہ پس رہا ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم ’’انمول تعلیم‘‘ کے تصور کو بچانے کیلئے سخت اقدامات کریں۔ حکومتوں کو زبانی وعدوں سے نکل کر ٹھوس قانونی اور مالیاتی بندوبست کرنا ہوگا۔ نجی اسکولوں کیلئے فیسوں کی ایک حد طے کی جائے اور اس کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں دی جائیں۔ اسکولوں کا سالانہ آڈٹ لازمی اور شفاف ہو، والدین کو باقاعدہ رپورٹ پیش کی جائے اور کسی بھی ناجائز فیس وصولی پر اسکول کی منظوری منسوخ کر دی جائے۔

اگر حکومتیں اس لوٹ کھسوٹ پر خاموش رہیں تو انہیں والدین کی بددعائیں اور طلبا کے ٹوٹے خوابوں کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ تعلیم اگر کاروبار بن گئی تو کل کا ہندوستان علم سے نہیں،صرف دولت سے آراستہ ہوگا اور یہ کسی بھی قوم کے زوال کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ اب فیصلہ حکومتوں اور عوام دونوں کو کرنا ہے کہ تعلیم کو ’’قیمتی‘‘ بنانا ہے یا ’’انمول‘‘ رکھنا ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS