پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ملک میں یکساں سول کوڈ پر سیاست پھر گرمارہی ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے قبل بی جے پی حکومت اُن تمام معاملات پر اقدام کررہی ہے جس کا تعلق مسلمانوں سے ہے اورجس کے خلاف عام طورپر مسلمان ہیں۔ حالانکہ اس قانون سے صرف مسلمان ہی متاثرنہیں ہیں بلکہ ملک کے قبائیلی اوردوسری مذہبی اورلسانی اقلیتیں بھی اس سے متاثرہیں اور اس کے خلاف ہیں ،لیکن بی جے پی یہ تصور پیش کرتی ہے کہ اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے اورمسلمان ہی اس کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ملک کے پہلے یکساں سول کوڈ بل کو 7فروری کو اترا کھنڈ اسمبلی میں صوتی ووٹوں سے منظور کرلیاگیا اورگورنر سے منظوری ملتے ہی یہ قانونی شکل اختیار کرلے گی۔ دراصل حکمراں جماعت کی جانب سے یہ ایک تجربہ ہے۔ اُسے ہروہ کام کرناہے جو ملک میں پولورائزیشن میں مدد کرے اور ہندو ووٹ اس کی جھولی میں آگرے۔ اب ہوسکتاہے کہ ملک کی دیگر بی جے پی حکومت والی ریاستیںبھی اس نوعیت کا بل پیش کردیںتاکہ عام انتخابات تک یہ مدعہ زندہ رہے۔ اترا کھنڈاسمبلی میں جو یوسی سی بل پاس ہواہے اس میں شادی، طلاق،وراثت اورگودلینے سے جڑے معاملوں کوشامل کیاگیاہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مطابق اترا کھنڈاسمبلی میں پیش ہونے والا یہ بل غیرمناسب، غیرضروری اور تنوع مخالف ہے، جسے اِس وقت سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے عجلت میں لایاگیاہے۔ یہ محض ایک دکھاوے اورسیاسی پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ بورڈ کے ترجمان ڈاکٹرسید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں کہاہے کہ یہ قانون صرف تین پہلوؤں پر مشتمل ہے، اوّل،شادی اورطلاق ،دوئم، وراثت کا معاملہ اورسوئم، لیون رلیشن شپ کیلئے ایک نئے قانونی نظام کا تصور پیش کیاگیاہے،ایسے تعلقات جوبلاشبہ تمام مذاہب کے اخلاقی اقدار پر اثرانداز ہوں گے۔
دراصل اس قانون کو تین بنیادوں پر غیرضروری ٹھہرایاگیاہے۔ پہلا ، جو شخص بھی کسی مذہبی پرسنل لاء سے اپنے عائیلی معاملات کو باہر رکھناچاہتاہے اس کیلئے ہمارے ملک میں اسپیشل میرج رجسٹریشن ایکٹ اور سک سیشن ایکٹ کا قانون پہلے سے موجود ہے۔ دوسرے، یہ مجوزہ قانون دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات26,25اور29سے بھی متصادم ہے جو مذہبی اورتمدنی آزادی کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ تیسرے، یہ قانون ملک کے مذہبی وتمدنی تنوع کے بھی خلاف ہے جو کہ اس ملک کی نمایاں خصوصیت ہے اورجس کیلئے بیرونی ممالک میں ہمارے ملک کی تعریف ہوتی ہے۔ اس قانون کے تحت شرعی قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ کم فہمی کا نتیجہ ہے۔ مثلاً اس قانون کے تحت باپ کی جائیداد میں لڑکا اورلڑکی دونوں کا حصہ برابر کردیاگیاہے جو کہ شریعت کے قانون وراثت سے متصادم ہے۔
اسلام کا قانون وراثت جائیداد کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے، خاندان میں مالی اعتبار سے جس کی جتنی ذمہ داری ہوتی ہے جائیداد میں اس کا اتنا ہی حصہ ہوتاہے۔ اسلام عورت پر گھر چلانے کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہ ذمہ داری سراسر مرد کی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ گھریلو کام کاج یا کھانا پکانے کیلئے بھی شرعی طور پر عورت کو مجبور نہیں کیاجاسکتا۔ علاوہ ازیں،اس قانون میں دوسری شادی پرپابندی لگانا بھی صرف تشہیری غرض کیلئے ہے، اس لئے کہ خودحکومت کے فراہم کردہ اعدادوشمار سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ اس کا تناسب بھی تیزی سے گررہاہے۔
دوسری شادی کا التزام تفریح کے مقصد سے نہیں کیاگیاتھا بلکہ سماجی ضرورت کے سبب کیاگیاتھااوراس کیلئے بھی تمام شرائط ہیں جسے پورا کئے بنا کوئی دوسری شادی نہیں کرسکتا۔ اگردوسری شادی پر پابندی لگادی گئی تو اس سے عورت کاہی نقصان ہے۔ اس صورت میں مرد کو مجبوراً پہلی بیوی کو طلاق دینی ہوگی ۔ درج فہرست قبائل کو پہلے ہی اس قانون سے باہر کردیاگیاہے اوردوسری تمام ذات برادریوں کیلئے ان کے رسم ورواج کی روایت رکھی گئی ہے۔ کچھ مبصرین کاخیال ہے کہ اترا کھنڈ یوسی سی بل سب پر نافذ کئے جانے والے ایک ہندو کوڈ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس بل میں ہندو غیرمنقسم خاندانوں کو چھوا تک نہیں گیاہے۔ اگرہماری حکومت جانشینی ووراثت کا یکساں قانون چاہتی ہے تو پھرہندوؤں کو اس سے باہر کیوں رکھاگیاہے؟
ایک اعتراض یہ بھی کیاجاتاہے کہ آخر اس میں سے قبائیلوں کو کیوں علاحدہ رکھاگیاہے؟ کیا کسی ایک طبقہ کو ایک قانون سے علاحدہ رکھنے سے وہ قانون سب کیلئے یکساں ہوسکتاہے؟ دلیل دی جاتی ہے کہ آئین کے ڈائریکٹیوپرنسپلس آف اسٹیٹ پالیسی میں اس طرح کے قوانین بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ ڈائریکٹیو پرنسپلس میں گائے کو ذبح کرنے کے خلاف بھی قانون بنانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کچھ ریاستوں میں اس قانون کو بناکر نافذ بھی کیاگیاہے، لیکن متعدد دیگر ریاستوں جیسے گوا ،بنگال اورشمال مشرقی ریاستوں کو اس قانون سے مستثنیٰ کردیاگیاہے۔ پھر مرکزی حکومت یہ کیوں نہیں مان لیتی کہ یوسی سی پورے ملک میں نافذ کرنا عملی طور پر مشکل ہے۔
دراصل اگر یکساں سول کوڈ نافذ کرنا اتنا آسان ہوتاتو اسے 1950ء میں ہی نافذ کردیاگیاہوتا۔ آئین ساز اسمبلی نے اس کی مشکلات کو سمجھ لیاتھا اسی لئے اس نے اس عمل کو ملتوی کردیاتھا۔ یہاں یہ ذکر بھی بیجانہ ہوگاکہ 2016ء میںمرکز کی بی جے پی حکومت نے ایک لا کمیشن مقرر کیاتھاجس نے 2018ء میں کہاتھا کہ اس وقت یکساں سول کوڈ نا تو لازمی ہے اورناہی مطلوب ۔
غالباً کمیشن اس نتیجے پر اس لئے پہنچا کیونکہ یکساں شہری قانون کا مسلمانوں سے بھی زیادہ ہندوؤں کی طرف سے مخالفت ہونے کا اندیشہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس قانون کا اثر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں پر بھی پڑتا کیونکہ اگرہندو غیرمنقسم فیملی قانون ختم ہوجاتا اوراس کے ٹیکس فوائد ختم ہوجاتے تواس کا شدید رد عمل ہوتا۔ اسی لئے اس قانون میں ہندوؤں کو اس معاملے سے استثنیٰ رکھاگیاہے۔ دھامی حکومت نے 27مئی 2022ء کو یوسی سی کا مسودہ تیار کرنے کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس سلسلے میں حکومت سے یہ سوال بھی کیاجارہاہے کہ اترا کھنڈمیں یوسی سی کی اس کمیٹی میں تمام اقلیتی برادریوں بشمول مسلمانوں ،پارسیوں،سکھوں اور بودھ مت کے افراد کو کیوں نہیں شامل کیاگیا؟یوسی سی کے تعلق سے مصنفہ وصحافی پامیلہ فلی پوز کا خیال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کو پہاڑی ریاست اترا کھنڈ میں مسلم آبادی والے علاقوں کو نسلی طور پر ’شدھ‘ بنانے کیلئے ریاستی حکومت کے مشن کے حصہ کے طور پر پیش کیا جا ر ہا ہے۔ امکان ہے کہ اترا کھنڈ کے بعد گجرات ،آسام اور ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی یوسی سی کا تجربہ کیاجائے، لیکن ان حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اسمبلیوں کی منظوری سے پہلے اُن تمام شکایات واعتراضات پر بھی غور کرلیں جس کی اس مضمون میں نشاندہی کی گئی ہے۔
[email protected]
اتراکھنڈ:یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا شوشہ : پروفیسر عتیق احمدفاروقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS