اتر پردیش اردو اکادمی، چیئرمین نہ ممبر

0

پروفیسر اسلم جمشید پوری

اردو اکادمیوں کا قیام صوبوں میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے مقصد کے تحت ہوا تھا۔ملک کی پہلی اردو اکادمی،لکھنؤ میں ’اترپردیش اردو اکادمی ‘کی شکل میںقائم ہوئی تھی۔لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ آج یہ اکادمی ہندوستان کی سب سے پچھڑی اکادمی بن گئی ہے۔ کئی سال سے اس کا کوئی چیئرمین ہے نہ ممبر۔دراصل اترپردیش اردو اکادمی کے چیئر مین کی بحالی ہر سال صوبائی حکومت کے ذریعہ ہوتی ہے۔پہلے اس میں دو اعلیٰ عہدیداران ہوتے تھے۔چیئرمین کے علاوہ ایک صدر ہوتا تھا،جو وزیراعلیٰ کی نمائندگی کرتا تھا،لیکن اس کے اختیارات کم ہوتے تھے۔وہ ہر کمیٹی کی صدارت کرتا تھا جبکہ چیئرمین اکادمی کے سبھی کاموں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔سماج وادی حکومت میں ہمیشہ صدر اور چیئرمین ہوتے رہے ہیں۔ آخری صدر مرحوم منور رانا تھے۔ یہ 2014کی بات ہے۔

اس وقت چیئرمین نواز دیو بندی تھے۔جنہوں نے کچھ دن تاخیر سے عہدہ سنبھالا تھا،جبکہ منور رانا فوراً ہی آگئے تھے اور تمام ضروری احکامات جاری کرنے شروع کر دیے تھے۔وہ صدر کی کرسی پر بیٹھتے نہیں تھے۔ان کی ضد تھی کہ وزیراعلیٰ آئیں اور وہ انہیں کر سی پر بٹھائیں۔وہ نہیں آئے اور نہ ہی وزیراعظم خان آئے۔اس لیے اسے اپنی بے عزتی محسوس کر تے ہوئے منور رانا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اتر پردیش اردو اکادمی کا قیام جنوری 1972میں عمل میں آیا۔اس کا قیام یو پی حکومت کے تحت اردو زبان و ادب اور تہذیب کے فروغ کے لیے ہوا تھا۔اس کا رجسٹرڈ آفس لکھنؤ میں بنایا گیا۔یہ سوسائٹیز ایکٹ کے مطابق ایک رجسٹر سوسائٹی تھی۔اس کے کام اور مقصد کو اس طرح واضح کیا گیا۔
مقصد : اکادمی کے بنیادی مقصد میںاردو کے فروغ کے ذریعہ اس کے زبان و ادب کو مضبوط بنانا شامل ہے۔

مقصد یا منزل کو حاصل کرنے کے لیے اترپردیش اردو اکادمی کے مختلف کام طے کیے گئے۔
-1 چھٹی کلاس سے پی ایچ ڈی تک کے اتر پر دیش کے اردو طلبا کو اسکالر شپ مہیا کرانا۔
-2 اردو ادب کی کلاسیکی کتابوں کو از سر نو شائع کرنا۔
-3 اردو کے شاعر،ادیب،صحافی اور کاتبوں کو مالی امداد دینا۔
-4 اردو زبان و ادب کے سمینار اور سمپوزیم منعقد کرنا۔
-5 اردو میں کتب،جرائد و رسائل شائع کرنا۔
-6 اردو کے استعمال اور پڑھائی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنا۔

رکنیت : سرکاری اداروں،تعلیمی اداروں اور اردو افراد جو اردو کے فروغ میں لگے ہوں،اکادمی کے ممبر بنیں گے۔ پانچ اقامتی یونیورسٹیز کے شعبہ ہائے اردو کے صدور اس کے ممبر ہوں گے۔فی الحال بنارس ہندو یونیورسٹی،اے ایم یو، الٰہ آباد یونیورسٹی،گورکھپور اور میرٹھ یونیورسٹی کے شعبہ ہائے اردو کے صدور اس کے ممبر ہوتے ہیں۔دیگر ممبران میں جس پارٹی کی صوبے میں حکومت ہوتی ہے،وہ اپنی مرضی سے اپنے لوگوںکو ممبر بناتی ہے،اب یہ الگ بات ہے کہ انہیں اردو آتی ہے یا نہیں۔ہونا تو یہ چاہیے کہ یوپی کی تمام یونیورسٹیز کے صدر شعبہ ہائے اردو،تمام کالجز کے اردو کے صدور اور اردو صحافی اور اردو جاننے والے اسکالرز اکادمی کے ممبر ہوں۔چیئرمین کو تو اردو آنی ہی چاہیے۔اب تک اردو کے بڑے بڑے اسکالرس اردو اکادمی کے صدر اورچیئرمین رہ چکے ہیں۔آنند نرائن ملا، محمد حسن، محمودالٰہی،ملک زادہ منظور احمد، منور رانا،نواز دیو بندی، آصفہ زمانی،شیمہ رضوی وغیرہ کے علاوہ مولانا یٰسین عثمانی، ترنم عقیل،اعظم قریشی،کیف الوریٰ جیسے سماجی اور سیاسی لوگ بھی چیئرمین رہ چکے ہیں۔اردو اکادمی کے اصول و ضوابط کے مطابق سب سے زیادہ کام پروفیسر محمود الٰہی کے زمانے میں ہوا۔ نایاب کتابوں اور اردو کی ضروری کتب کی اشاعت اور پرانی کتابوں میں ترمیم و اضافے ہوئے۔

مختلف زمانوں میں اردو کے فروغ کے نئے نئے کام ہوئے۔کوچنگ اسکول قائم ہوئے۔کمپیوٹر سینٹرز عمل میں آئے۔لائبریریز کو مدد دی جانے لگی۔ اردو دروازے بنے۔ میڈیا ہائوس وجود میں آیا۔ مونو گراف لکھوائے گئے۔ مختلف موضوعات پر کتابیں شائع ہوئیں۔رسالہ، سہ ماہی اکادمی،ماہنامہ خبر نامہ کے علاوہ بچوں کا رسالہ ماہنامہ ’’باغیچہ‘‘شروع ہوا۔ سمینار، ورکشاپ، اجرا، اعزازیہ پروگرام منعقد ہوئے۔طلبا کو اسکالر شپس ملیں۔شعرا ادباء کو امداد اور مختلف کتابوں کے مسودات پر تعاون دیا گیا۔

درجِ بالا کاموں میں سب سے اہم اور اردو والوں کو جس کابے صبری سے انتظار رہتا ہے،وہ ہے کتابوں پر انعام اور مجموعی ادبی خدمات کے انعامات۔2008-09میں کتابوں پر ایوارڈ کی رقم ایک ہزار،دو ہزار سے لے کر پانچ ہزار تک تھی۔مجموعی ادبی خدمات کے لیے 51 ہزار کے دو اور صحافت کے لیے 10 ہزار روپے کا ایک ایوارڈ تھا۔ اکادمی کا سب سے بڑا ایوارڈ مولانا ابوالکلام آزاد ایوارڈ ایک لاکھ 11ہزار رو پے کا تھا۔ترنم عقیل صاحبہ کے زمانے میں ایوارڈ کی تعداد اور قیمت میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔اب کتابوں پر 5000 سے لے کر 25ہزار تک کے ایوارڈ۔ مجموعی ادبی خدمات کی کئی ایوارڈ ہیں جو ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک ہیں۔سب سے بڑا ایوارڈ اب پانچ لاکھ روپے کا ہے۔مگر افسوس 2022, 2023اور2024 کے ایوارڈ ز اب تک نہیں دیے گئے ہیں۔نہ ہی اردو حلقوںمیں اس کے لیے صوبائی سطح پرکوئی تحریک ہے نہ آواز۔اردو والوں میں خاموشی ہے۔

2023اگست سے کمیٹی کا وجود ہے نہ کوئی چیئرمین۔ اترپر دیش اردو اکادمی پھر بھی کام کر رہی ہے۔مشاعرے اور سمینار منعقد ہو رہے ہیں۔مشاعرے اورسمینار کا انعقاد یوپی کی مختلف تنظیموں کے ذریعہ ہو رہا ہے۔اکادمی کے بینر تلے ہونے والے پروگرام ایجنسیوں کو ٹھیکے پر دیے جا رہے ہیں۔ بھاشا وبھاگ کے لوگ قطعی نہیں چاہتے کہ اکادمی کی کمیٹی اور چیئرمین بنیں۔اسی طرح کام چلتا رہے۔اردو والے بھی خاموش ہیں۔سب کو ڈر اور خوف ہے کہ کوئی اردو کے حقوق کے لیے بو لنے کو تیار نہیں۔

آج اترپردیش اردو اکادمی کا حال،ملک کی دیگر اردو اکادمیوں کے سامنے صفر ہے، جبکہ ملک کی دوسری اکادمیاں اترپردیش اردو اکادمی کو دیکھ کر اور بعد میں وجود میں آئیں۔ آج بھی اترپردیش اردو اکادمی کی پہلے کی مطبوعات دوسری اکادمیوں سے بہت سستی ہیں۔آج بھی دوسری اکادمیوں کے لوگ اکادمی سے اردو کے فروغ کی اسکیمیں معلوم کرتے ہیں۔یہ اکادمی عمارت کے لحاظ سے بھی ملک کی سب سے بڑی اکادمی ہے۔اسٹاف کے لحاظ سے بھی یہ اکادمی بڑی تھی۔اب بہت سے لوگ ریٹائر ہوگئے ہیں۔ ان کی جگہ عارضی طور پر لوگوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔

گزشتہ چند برسوں میں کچھ بہت اچھے کام ہوئے ہیں۔ ایک تو آئی ایس اسٹڈی سینٹر، میڈیا مرکز اور بچوں کا رسالہ ’’باغیچہ ‘‘ کا جاری ہونا ہے۔ان میں سب سے بڑا کام آئی ایس اسٹڈی سینٹر ہے۔جو نواز دیوبندی کی چیئرمین شپ میںشروع ہوا،جس میں نہ صرف اترپردیش بلکہ پورے ملک کے اردو والوں کے داخلے ہوتے ہیں۔داخل طلبا کے لیے رہنے، کھانے اور پڑھنے وغیرہ کا مفت انتظام ہوتا ہے۔یہ اترپردیش اردو اکادمی کا ایسا کام ہے جو لائق تحسین و تقلید ہے۔

اکادمی کا موجودہ بجٹ 10کروڑ سے زیادہ ہے۔ اس میں ملازمین کی تنخواہیں بھی شامل ہیں۔پھر بھی یہ 6 یا 7 کروڑ اردو اکادمی کے دیگر کاموں کے لیے ہوگا۔دو سال سے اکادمی میں نہ کمیٹی ہے نہ کوئی چیئر مین۔پھر یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے؟ یا تو اس کا بڑا حصہ واپس ہو رہا ہوگا یا پھر اونے پونے ٹھکانے لگ رہا ہوگا۔تین سال کے انعامات رکے ہوئے ہیں۔کتابوں کی اشاعتیں نہ کے برابر ہو رہی ہیں۔ اکادمی کے رسالے ایک ایک سال پیچھے ہیں اور بازار میں دستیاب نہیں ہیں۔یہ رسالے کتنی تعداد میں شائع ہو تے ہیں اور ان کی کھپت کہاں ہے؟ سمیناروں اور مشاعروں کو کون پیسہ دے رہا ہے؟اردو اکادمی سے اردو سیکھنے والے طلبا کہاں جاتے ہیں؟ ان کو کتنی اردو آتی ہے۔سال میں دو بار یہ کورس کرنے والے اردو کے طلبا کیا اردو کو عام نہیں کرتے۔اردو مراکز پر چلنے والے کمپیوٹر سینٹر اور کوچنگ اسکول کی پیداوار( طلبا)پر کیا خرچ ہو رہا ہے؟ اردو اکادمی کا پیسہ کہیں اور تو خرچ نہیں ہو رہا ہے؟ صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اردو اکادمی کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اردو اکادمی کا پیسہ اردو کے فروغ کے لیے لگ رہا ہے اور اس سے اردو کو کافی فائدہ پہنچ رہا ہے۔جلد ہی کمیٹی اور چیئرمین کی بحالی ہو تاکہ اردو اکادمی کے ر کے ہوئے کام جلد ہو سکیں۔اردو والوں کو تین سال کے انعامات بھی مل سکیں۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS