آجکل جس کے پاس بھی سمارٹ فون ہوگا وہ ضرور اس پر سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ لوگوں کو موبائل فون کی ایسی عادت ہو گئی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کے ذریعے خود کو باخبر رکھتے ہیں۔لیکن سوشل میڈیا پر خبروں کی تصدیق بھی ایک مسئلہ ہے اور کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ بغیر تصدیق کے خبریں یا کوئی پوسٹ شیئر کر دی جاتی ہے۔30 جون کو سوشل میڈیا کے عالمی دن کے موقعے پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا بھر میں جھوٹ اور غلط معلومات کا پھیلاؤ صرف ایک ٹچ پر ہے۔ ہم سب اس پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں آپ کو سوشل میڈیا کے عالمی دن پر کچھ بھی آن لائن شیئر کرنے سے پہلے روک کر تصدیق کرنے کا مشورہ دوں گا۔کیا معاشرے میں بڑھتے مسائل اور نوجوانوں میں ڈپریشن کے پیچھے صرف سوشل میڈیا ہے؟ یہاں اس کے ساتھ ہی کچھ اور سوالات بھی ہیں۔ جیسا کہ آپ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلا کام کیا کرتے ہیں؟ آپ کا سونے سے پہلے آخری کام کیا ہوتا ہے؟ دن کے کسی بھی حصے میں ملنے والے فارغ وقت میں آپ زیادہ تر کیا کرتے ہیں؟ نیٹ فلکس ڈاکیومنٹری ’دی سوشل ڈیلما‘ میں گوگل کے سابق ڈیزائن ایتھیسٹ ٹرسٹن ہیرس نے کہا کہ ’ہمیں لگتا ہے گوگل صرف چیزیں ڈھونڈنے کی جگہ ہے، فیس بْک محض دوستوں کا حال جاننے کی اور ان کی تصویریں دیکھنے کی۔ ٹرسٹن ہیرس نے سوشل میڈیا کمپنیوں کے بارے میں بتایا کہ ’درحقیقت فیس بک، سنیپ چیٹ، ٹوئٹر انسٹاگرام، یوٹیوب ٹک ٹاک، پن ٹرسٹ گوگل اور نہ جانے کتنے سوشل میڈیا پیلٹ فارمز ہیں، ان سب میں صارفین کا وقت اور زیادہ توجہ حاصل کرنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ جن کا مقصد آپ کو سکرین سے باندھ کر رکھنا ہے۔ فیس بْک کے سابق آپریشن مینیجر سینڈی پیراکلس نے بتایا کہ گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیاں اپنے صارفین پر چھوٹے چھوٹے تجربے کرتی تھیں۔ ان تجربوں کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ آپ صارف سے اپنی مرضی کا کام کروانے کا عمدہ طریقہ تیار کر لیتے ہو۔ سینڈی پیراکلس نے کہا کہ ہم سب اْن کے لیے لیب کے چوہے ہیں۔ ہم پر تجربے کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھی جانے والی ایڈورٹائزمنٹ ہی ان کے مالکان کا پیسے کمانے کا ذریعہ ہے۔ سوشل میڈیا اونرز کی خواہش بھی یہی ہے کہ کوئی بھی صارف اپنا زیادہ سے زیادہ وقت انہی کی ایپلیکیشن کا استعمال کرتے ہوئے گزارے۔ اس کے لیے وہ مختلف حربوں کا بھی استعمال کریں گے۔ کیا سوشل میڈیا واقعی نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے لیے خطرناک ہے؟ سوشل سائیکالوجسٹ جوناتھن ہیڈٹ کے مطابق ’امریکہ میں نوجوانوں میں بے تابی اور ڈپریشن کے واقعات 2011 سے 2013 کے درمیان بڑھنا شروع ہوئے تھے۔ خود کو نقصان پہنچا کر یا خود کشی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’خود کو نقصان پہنچا کر ہسپتال میں لائی گئی لڑکیوں کی تعداد میں 2013 کے بعد بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔ ہسپتال میں لائی گئی بڑی لڑکیوں کی تعداد 62 فیصد بڑھی جبکہ چھوٹی لڑکیوں کی تعداد میں 189فیصد تک اضافہ ہوا۔ اور یہی تناسب خود کشیوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ سوشل سائیکالوجسٹ جوناتھن ہیڈٹ نے کہا کہ ’ان سب حقائق کا اشارہ سوشل میڈیا کی طرف ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوان اپنی زندگیوں کا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں۔ اور وہ ایک ایسی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں جس میں شائد ان کی کبھی جیت نہ ہو یہی چیزیں انہیں ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہیں۔اسٹریس مینجمنٹ کنسلٹنٹ اور سوشل سائیکالوجسٹ نایاب قادر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ڈپریشن ایک سنگین دماغی بیماری ہے۔ جب کوئی شخص بہت طویل عرصے تک کسی مسئلے کا شکار رہتا ہے تو انسان ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ’ڈپریشن میں انسان کے فیصلے، دوستوں اور گھر والوں سے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔ انسان خود کو اکیلا کر لیتا ہے اور منفی خیالات آنے لگتے ہیں۔ ڈپریشن کے مریض سائیکو تھراپی اور کوگنیٹو تھراپی بھی کروا سکتے ہیں۔ اگر ٹھیک وقت پر علاج نہیں کیا جاتا تو متاثرہ شخص اور اس کی فیملی کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر آپ کے قریب کوئی ڈپریش کا مریض ہے ان کا بروقت علاج کرائیں کیونکہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سروے کرنے والے ادارے دی گلوبل اکانومی کے مطابق 2013 میں پاکستان کا ہیپی انڈیکس 5.29 تھا جبکہ 2021 میں پاکستان کا ہیپی انڈیکس 4.52 رہا۔ دنیا کے خوشحال ترین ممالک کی فہرست میں فِن لینڈ پہلے ڈنمارک دوسرے اور پاکستان 116 ویں نمبر پر ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی سابق انٹرنیٹ ریسرچر سینتھیا ایم وونگ کا کہنا ہے کہ حکومتوں اور مختلف طاقتوں کا سوشل میڈٰیا کو ہتھیار بنانے کا اثر ہماری روز مرہ کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار میں انٹرنیٹ کا مطلب ہی فیس بْک ہے۔ وہاں اکثر لوگ جب موبائل خریدتے ہیں تو دکاندار اس میں فیس بک اسٹال کر کے اس میں ان کا اکاؤنٹ بنا دیتا ہے۔‘ فیس بْک میں سرمایہ کاری کرنے والے راجر مکنامی کا کہنا ہے کہ ’اگر سب کے سچ الگ ہوں تو ایک نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ ٹرسٹن ہیرس کے مطابق اگر مجھے کسی الیکشن میں کوئی جوڑ توڑ کرنا ہو، فیس بک کے ایک گروپ میں مجھے ایسے سو لگ مل جائیں گے جو مانتے ہیں کہ دنیا چپٹی ہے، اور میں فیس بک سے کہوں گا مجھے ایسے ہزار لوگ چاہییں اور وہ مجھے مل جائیں گے۔
سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں میں ڈپریشن کا باعث ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS