انتخابی مہم کے دوران خواتین کیلئے نازیبا الفاظ کا استعمال ممنوع: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہم عورت (خواہ بیوی ہی سہی) کو انگریزی زبان میںbetter half کہتے ہیں مگر عملاً ہم میں سے کچھ لوگ اس نصف بہتر کو نصف کمتر سمجھتے ہیں اورخواتین کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کرنے اور فقرہ کشی سے باز نہیں آتے۔عورت جسے کبھی دیوی کا روپ کہا جاتا ہے تو کبھی پیمبر کی امت، کبھی رادھا کی ہم جنس تو کبھی زلیخا کی بیٹی، وہ ماں بھی ہے، بیوی بھی اور بیٹی بھی، لیکن اس سب کے باوجود سماج میں اسے وہ اہمیت حاصل نہیں جو ہونی چاہیے۔ آج بھی وہ ایسے بہت سے انسانی حقوق سے محروم ہے جن کی بین الاقوامی دستاویزوں اور دساتیر عالم میں ضمانت دی گئی ہے۔ دنیا کے تمام ممالک میں، خواہ وہ کتنے ہی پسماندہ ہوں یا ترقی یافتہ، عورتوں کے ساتھ کم وبیش امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔یوروپی ممالک جہاں انسانی حقوق کو کافی اہمیت دی جاتی ہے وہاں پر بھی عورتیں مساوی حقوق سے محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ممالک میں قوانین مساوات(Equality Acts) وضع کیے گئے ہیں۔

شاید ان سب باتوں کو اور کچھ لوگوں کی بد زبانی کے مدنظر،جن کا نام نہ لینا ہمارے چیف الیکشن کمشنر کی اعلیٰ ظرفی ہونے کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ آداب کے تحت ان کی مجبوری بھی رہی ہوگی، دہلی میں الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران اپنے اعلان میں ماڈل ضابطۂ اخلاق کی پابندی کے حوالے سے یہ کہنا کہ خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال نہ کیے جائیں اور ایسا کرنے کی صورت میں قصورواروں کے خلاف کمیشن فوجداری مقدمہ دائر کرنے کی بھی سفارش کرسکتا ہے،اس بات کا ثبوت ہے کہ امیدواروں کی جانب سے اس طرح کا رویہ اختیار کرنے کا خدشہ ہے۔ بڑا اچھا لگا جب انہوں نے اپنے قلم بند موقف کی حمایت میںاردو کے چند اشعار زبانی پڑھے۔خدا کرے کہ متعلقین اس آئینی طوطیٔ با اختیار کے اس مشورے پر عمل کریں۔ بظاہر توایسا نظر نہیں آتا اور وہ بھی اس لیے کہ جب ہماری پارلیمنٹ میں نہ صرف کسی ایک رکن بلکہ وزیراعظم، حزب اختلاف کے قائد اور دیگر معزز اراکین کے خلاف جب غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کیے جارہے ہوں اور فقرہ کشی وطعنہ زنی کی جارہی ہو اور اسی ایوان میں لوگ مسکرا رہے ہوں مگر ایسے غیر ذمہ داران اراکین کے خلاف کوئی چھوٹی موٹی کارروائی کرکے ان کو معاف کردیا جائے اور اسی طرح سپریم کورٹ کے ان احکامات کو بھی جن میں انتظامیہ کو یہ ہدایت دی گئی ہو کہ وہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے،جو کسی کے بھی خلاف نازیبا اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے ہیں یا تقاریر کرتے ہیں، نظرانداز کردیا جائے تو ظاہر بات ہے اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے احکامات پر عمل نہ کیا جانا ایک روایت سی بن گئی ہے۔ یہ غیر ذمہ دار لوگ اپنی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں بقول سرفراز اعظمی ؎

رہ جائیں دانت پیس کے پیر وجواں تمام
اتنا نہ خود کوغیر مہذب دکھائیے

ایک وہ دور تھا جب مرزا غالب کو دوران گفتگو لفظ ’ تو‘ کے استعمال کو بھی قابل مذمت قرار دیتے ہوئے یہ کہنا پڑا تھا:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

مگر اب تو بات تو اور تو سے بڑھ کر ’ تو تو میں میں‘ تک پہنچ چکی ہے۔ آج وہ لوگ اور مقبول عام شخصیتیں جن کی ہر بات، ہر روش، ہر فعل اور انداز گفتگو عوام کے لیے باعث تقلید ہوتا تھا، آج باعث تنقید بن چکا ہے۔ اگر کوئی منصب دار یا مقبول عام شخصیت اس طرح کی روش اختیار کرتی ہے تواس کے بارے میں یہی کہا جائے کہ ’او شائستگی ایں مقام ندارد‘ یعنی وہ اس منصب یا رتبہ کا اہل نہیں ہے۔ جب ایک جمہوری نظام میں جہاں عوام اپنے نمائندے خود چنتے ہیں، مقبول عام شخصیتیں اور عوامی نمائندے ہی ایسے الفاظ کا استعمال کرنے لگیں تو نئی نسل ان سے کیا سیکھے گی؟ ایسے الفاظ کا استعمال کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ کسی بھی مہذب معاشرہ میں کسی کو حقیر وذلیل سمجھنے یا تلخ نوائی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہرشخص کا یہ قانونی حق ہے اور اسے بنیادی انسانی حقوق کے طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہرشخص کی اپنی شناخت ہو اور اس میں جو خوبیاں ہیں ان کی قدر کی جائے خواہ وہ کسی بھی میدان یا شعبۂ حیات سے وابستہ ہو۔ مگر یاد رہے کہ جب بھی کسی لفظ یا اصطلاح کا استعمال تشبیہ کے طور پر کیا گیا ہو تو اس کو اس سیاق وسباق اور پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے جس میں وہ تشبیہ دی گئی ہے اور کسی معنوی اشارے کو کسی سے براہ راست منسوب نہیں کیا جانا چاہیے یعنی اس کی محض لفظی تعبیر نہیں کی جانی چاہیے۔ہمارے ملک میں اس سلسلہ میں تقریباً سبھی کا دامن داغ دار ہے اور خاص طور سے گزشتہ چند دہائیوں میں ان داغوں میں مزید اضافہ ہوا ہے اور کس نے کس کو کیا نہیں کہا، اس کو دہراتے ہوئے بھی ہر شریف آدمی شرم محسوس کرے گا۔ جب ہمارے رہنما اور مقبول عام شخصیتیں ہی، جن کا کام عوام کی رہنمائی ہے غیرشائستہ زبان کا استعمال کرنے لگیں اور بدکلامی کو اپنا وطیرہ بنا لیں تو ایسی صورت میں صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے کو جنم دے رہے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ ہمارا معاشرہ بتدریج اپنی گرانقدر قدیمی روایات اور ہر شعبۂ حیات میں اخلاق حسنہ سے محروم ہوجائے گا۔ قدیم روایات اور تہذیب ہمارے لیے مثالی اور مشعل راہ رہی ہیں مگر افسوس کہ اب اس مشعل اور روشنی دینے والی شمع کی روشنی مدھم پڑتی جارہی ہے۔ مگر جب امریکہ جیسے ملک کے سابق صدر محترم ڈونالڈٹرمپ نے وہاں کے ایک سینیٹرروبیو کو چوکر کہہ دیاتو اوروں کی تو بات ہی کیا؟امید کی جانی چاہیے کہ اب وہ اپنی دوسری اننگ میں ایک بہتر کردار ادا کریںگے۔

غیر شائستہ زبان جسے اب ہم غیر پارلیمانی زبان کہتے ہیں، اس کا بھی ایک تاریخی پس منظرہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے ایسے رہنما خطوط مرتب کیے ہیں جن کی رو سے ان کے قانون ساز اداروں اور مماثل اداروں میں کچھ غیر شائستہ الفاظ کا استعمال ممنوع ہے مثلاً کسی کو کسی جانور سے تشبیہ دینا،غنڈہ، بدمعاش کہنا یا دیگر نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا۔غیر شائستہ زبان کا استعمال تو صرف ان اداروں میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی مقام، موقع، فورم یا محفل میں مناسب نہیں مگر بڑ ے افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان جیسے مہذ ب ملک میں چند لوگ اس قسم کی زبان کے استعمال کی مسابقتی دوڑ میں ایک دوسرے سے باز ی لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے کہ لوک سبھا سیکریٹریٹ Unparliamentary Expressions (غیر پارلیمانی اصطلاحات)کتاب کے نام سے اس کے کئی ایڈیشن شائع کرچکا ہے اور ان میں ان الفاظ کی مکمل فہرست دی ہوئی ہے جن کا استعمال پارلیمنٹ میں ممنوع ہے اور جنہیں غیرپارلیمانی اصطلاحات سمجھا جاتا ہے۔اس کتاب میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہی ہیں۔ اس تصنیف کی معتبریت کا احترام کرتے ہوئے متعلقین کو خواہ وہ امیدوار ہوں یا دیگر اس قسم کی اصطلاحات کااستعمال نہیں کرنا چاہیے۔

(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS