ایم اے کنول جعفری
گزشتہ صدی کے دوران ادویات کے ماہرین نے طب کے میدان میں زبردست ترقی کی ۔ اس غیر معمولی ترقی نے انسانی صحت سے متعلق طرح طرح کی بیماریوں اور درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے شاندار پیش رفت کی اور مستقبل کی راہوں کو بڑی حد تک آسان بنادیا ۔ اس کے لیے اَﷲ تبارک و تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے،کم ہے۔ایک وقت تھا جب ملیریا، ہیضہ، طاؤن، تپ دق،جذام ،انفلوئنزا،چیچک، بینائی جانے اور بطن میں بچہ مرنے پر ماں کی زندگی بچانے سمیت کئی بیماریوںکو لاعلاج سمجھا جاتا تھا۔’ایڈز‘، ’ایچ آئی وی‘ اور’کووڈ19-جیسی کئی نئی، وبائی اور جان لیوا بیماریوں نے دنیا کو بے حد خوف زدہ کردیا،لیکن آج بڑی حد تک ان کا علاج موجود ہے ۔قدیم معاشروں میں بیماری کوانسانوں کے گناہوں کی سزا تسلیم کیاجاتاتھا۔بعد میں سائنسی ایجادات اور متعدی امراض کی دوائیںتیار ہونے کے بعد ماڈرن ایلیوپیتھی اورجدید سائنس کے نئے نئے تجربات نے یونانی ، آیورویدک اورہومیوپیتھی وغیرہ کے دیرطلب علاج کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔صحت کی دیکھ بھال میں بہتری اور وبائی امراض پھیلانے والے عوامل کو سمجھنے،ان کے اثرات کم کرنے اور ان پر قابو پانے میں عالمی سطح پر عوامی رجحان فروغ پا رہا ہے۔ تحقیقی اداروں نے نقصان دہ بیکٹیریا اور فنگس کو قابو میں رکھنے کی طرف توجہ دی۔تاہم جراثیم بھی دوائیوں کا تیزی سے مقابلہ کرنے اور ان کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے کچھ پروٹین تیارکرتے ہیں۔ یہ وہ مزاحمت ہے جو ہمارے جسموں نے دوا کے خلاف تیار کی ہے۔ یہ مخصوص پروٹین ڈی این اے کی زنجیریں ہیں،جو دوسرے بیکٹیریا میں منتقل ہوجاتی ہیں۔’ سپر بگ‘ یا’ سپر بیکٹیریا‘ نام کا یہ جراثیم ہمارے جسم کو ایسی بیماریوں کا شکار بناتا ہے،جس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔حالاں کہ، کھانسی اور نزلہ جیسی معمولی بیماریوں کے لیے اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہے۔اسے جسم کا مدافعاتی نظام کنٹرول کرسکتاہے،لیکن پھر بھی اینٹی بائیوٹک کا کثرت سے استعمال کیا جاتاہے۔طب اور سرجری کے میدان میں غیر معمولی ترقی اور امراض کی نئی نئی ادویات کی کھوج ہونے کے باوجود نئے نئے مرض بھی سامنے آ رہے ہیں۔ آخر کیوں؟کیا اس کے لیے اینٹی بائیوٹک کی کثرت ذمہ دارنہیں ہے؟
پُرانے لوگ اینٹی بائیوٹک سے ناواقف تھے،لیکن آج مریض ڈاکٹر سے اچھا اینٹی بائیوٹک لکھنے کو کہتاہے۔اینٹی بائیوٹک کیاہے؟ادویات کی اصطلاح میںجراثیم کش یا اینٹی بائیوٹک کا لفظی مطلب ’زندگی کے خلاف‘ ہے۔ تکنیکی طور پر بیماری میں استعمال ہونے والی ہر وہ دوا،جو نقصان پہنچانے والے جراثیم کو مارنے کی طاقت رکھتی ہوکو اینٹی بائیوٹک کہا جا سکتا ہے۔زیورخ،بروسیلس اور جان ہاپ کنس یونیورسٹیوں اور کچھ دیگر معتبر اداروں کے ایک بین الاقوامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق نے جو انکشاف کیا ہے،وہ بے حد چونکانے والا اور انتہائی تشویش ناک ہے۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں2030 اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال میں50فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہونے کے امکان ہیں ۔ یہ مطالعہ نہ صرف صحت عامہ کے نظام کے لیے سنگین انتباہ ہے، بلکہ اس سے یہ کا بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان ادویات کا اندھا دھند استعمال کس طرح انسانیت کو صحت کے عالمی بحران کی جانب دھکیل رہا ہے۔ 2016 سے 2023 کے درمیان ہندوستان سمیت دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی ڈیمانڈ میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بڑھتی آبادی اور ترقی پذیر ممالک میں انفیکشن کے بڑھتے ہوئے معاملات نے اینٹی بائیوٹکس کی مانگ میں اضافہ کیا۔ صحت کی خراب و غیر تسلی بخش خدمات اور ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے لوگ اکثر طبی مشورے کے بغیر ان کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔اس سے بھی حالات بد سے بدتر ہورہے ہیں۔وائرل انفیکشن میں محدود اثرکے باوجود وبائی مرض’کورونا‘ میں اس کا کثرت سے استعمال کیا گیا۔ادارہ عالمی صحت کی رپورٹ کے مطابق اسپتال میں داخل ’کورونا‘کے مریضوںمیں سے صرف 8 فیصد میں بیکٹیریل انفیکشن تھا،لیکن سودمند ثابت ہونے کی اُمید میں کورونا کے4میں سے3مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس دی گئی۔اس میں دو رائے نہیں کہ وبائی مرض سے قبل ترقی یافتہ ممالک میں ان کے استعمال میں کمی آئی،لیکن مخصوص اینٹی بائیوٹک کی اب بھی مانگ ہے۔اس سے ’اینٹی مائیکروبیل ریزسٹینس‘ (اے ایم آر)کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔اس کی وجہ سے عام انفیکشن بھی جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اے ایم آر سے پوری دنیا میں ہر سال12.5لاکھ اور ہندوستان میں قریب3لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ دنیا میںاینٹی بائیوٹکس کی سب سے بڑی منڈیوں میںسے ایک ہندوستان میں یہ دوائیں ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں ۔ اینٹی بائیوٹکس شرح اموات کم کرنے میں مددگار تو ہیں،لیکن ان کا غیر ضروری استعمال نقصان دہ ہے۔
بیماری اور تباہی سے بچنے کے لیے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال صحیح اور بہت احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک کاشروع کیاجانا یاپھر بند کرنا مناسب نہیں ہے ۔ اگر ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک تجویز کرے،تو اس کا کورس مکمل کرنا چاہئے۔اپنے ذریعہ لی جانے والی اینٹی بائیوٹکس دوسرے کے ساتھ تقسیم کرنے، کسی بیماری کے باربار ہونے سے بچنے اوراس کے استعمال کے مضر اثرات سے بچنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے،لیکن طبی اصول ومشورے پر عمل کر کے جراثیم کے فروغ کو روکا جا سکتا ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ جان لیوا بیماریوں میں سے ایک مہلک بیماری’ کورونری آرٹری ڈیزیز‘ ہے۔اس اسکیمک دل کی بیماری میں دل کو خون فراہم کرنے والی خون کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں۔یہ سینے میں درد،دل کی ناکامی اور دوسرے مسائل کا سبب بنتی ہیں۔صحت عامہ کی بہتر تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور روک تھام کے طریقوں کی بنا پربہت سے یوروپی ممالک میں اموات کی شرح میں کمی آئی ہے۔ اس کے باوجود کئی ترقی پذیر ممالک میں اس کی شرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس اضافے میںبڑھتی عمر، سماجی و اقتصادی تبدیلیاں اور طرززندگی کے خطرات کے عوامل اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔خطرات کے عوامل میں ہائی بلڈ پریشر،کولیسٹرول، تمباکو نوشی، زیادہ وزن،ذیابیطس اورخاندانی تاریخ وغیرہ شامل ہیں۔آج کی بیماریوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں سرجری کا اہم کردار ہے۔ سرجری کی نئی تکنیک اورسہولیات کی بنا پرایک عضوکے خراب ہونے پر اُسے نہ صرف جسم سے الگ کیا جا سکتا ہے،بلکہ اس کی جگہ دوسرا بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آج کی دنیا میںکتنے ہی لوگ ایک گردے ، ایک پھیپڑے،ایک آنکھ،ایک کان،ایک ہاتھ اورایک پیر کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں۔دل میں خون کی سپلائی کے لیے کام آنے جیسی نسیں ہماری پنڈلیوں میں موجود ہیں۔قلب کی بائی پاس سرجری کے لیے حسب ضرورت وہاں سے نسیں نکال کر استعمال میں لائی جاتی ہیں۔
سائنس دانوں نے1900کی دہائی کے اوائل میں پہلی اینٹی بائیوٹک سالورسن کو متعارف کرایا تھا۔1928میں پینسلن کی تلاش کے بعد قدرتی اینٹی بائیوٹکس کی دریافت میں سنہرے دور کا آغاز ہوا ۔1950 کی دہائی میں یہ اپنے عروج پر تھا۔اینٹی بائیوٹک کی دریافت سے پہلے لوگ گلے کے معمولی بیکٹیریل انفیکشن سے مرجایاکرتے تھے۔اینٹی بائیوٹک کی دستیابی کے بعد صحت اور سرجری زیادہ محفوظ ہو گئی ہے۔ اینٹی بائیوٹک گولیوں،کیپسولس ، انجکشن،کریم،لوشن،اسپرے اور ڈراپس وغیرہ کی شکل میں ہو سکتے ہیں۔اینٹی بائیوٹکس کو پینسلن،سیفلو اسپورنس،ایکنوگلائیکوسائڈس،ٹیٹرا سائیکلن ، میکرولائڈس اور فلوروکوینولون اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے۔ اینٹی بائیوٹک لینے کے فوراً بعد اپنا کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔کان، دانت،کھال،سائنس، گلے، مثانہ اور گردے، نمونیہ، کالی کھانسی ، میننجائٹس،پیٹ میں درد،اینٹھن،دن میں 3-4بار پانی جیسے دست،بھوک نہ لگنا، بخار ہونا، جی متلانا اور دل کی دھڑکن تیز ہونے میںاینٹی بائیوٹکس کا استعمال عام بات ہے۔اینٹی بائیوٹکس کا زیادہ استعمال نقصان دہ اور خطرناک ہو سکتا ہے۔اس لیے پہلے کلچرل ٹیسٹ کرانا اوراس کے بعدڈاکٹر کی صلاح سے صحیح اینٹی بائیوٹک کا استعمال کرناہی مناسب ر ہے گا۔
(مضمون نگار معروف ماہر معاشیات ہیں۔)
[email protected]