ایم اے کنول جعفری
انگلش ڈرامہ نگار شیکسپیئر کے ’دی ہیملیٹ‘، ’دی ٹیمپیسٹ‘،’میکبیتھ‘،’جولیس سیزر‘اور ’اے مڈ سمر نائٹ‘ وغیرہ ڈراموں میںبھوت،چڑیل،پری اور ظاہری شکلوں میںمافوق الفطرت عناصریعنی سپر نیچرل پاورز (Super natural powers)پائی جاتی ہیں۔ ان قصے کہانیوں میں جب کسی جسم میںاچانک کوئی غیر فطری طاقت داخل ہوجاتی تھی،تب وہ اپنے طریقے سے دشمن کو ختم کر دیا کرتی تھی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی کچھ کچھ ایسا ہی ہوتا معلوم دے رہاہے۔دوسری مرتبہ الیکشن جیتنے کے بعداُن کے جسم میںبھی ’مافوق الفطرت طاقت‘ جیسی کوئی شے داخل ہوگئی ہے،شاید اسی لیے وہ سبھی کو ایک ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کو یقین تھا کہ کئی دیگر ممالک کی طرح یوکرین بھی اُن کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا،لیکن وہائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان ہوئی تلخ بحث نے اس سوچ کو غلط ثابت کردیا۔اس کے بعدزیلنسکی امریکہ سے لندن پہنچ گئے،جہاں برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے اُنہیں گلے لگاکر انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا۔ سڑک کنارے کھڑے عوام نے بھی زوردار نعروں کے ساتھ ان کا خیرمقدم کیا۔اسٹارمر نے اگلے ہی روز یوکرین کی حمایت میں یوروپی رہنماؤں کا ہنگامی اجلاس بلایا۔اس میں شرکت کے لیے جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت 27 ممالک کے سربراہان کو مدعو کیاگیاتھا۔ برطانیہ،فرانس اور یوکرین نے روس-یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
برطانیہ میں ہوئے اجلاس میں فرانس، جرمنی، ڈنمارک اور اٹلی سمیت13ممالک نے شرکت کی۔ ناٹو کے سیکریٹری جنرل، یوروپی یونین اور یوروپی کونسل کے صدور بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں طے پائے منصوبے کو امریکہ کے سامنے رکھا جانا ہے۔اسٹارمر کو یقین ہے کہ ٹرمپ یوکرین میں دیرپا امن چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ اُسی صورت میں کام کرے گا،جب امریکہ اپنی سیکورٹی گارنٹی پر قائم رہے گا۔برطانیہ نے یوکرین کو24,000کروڑ روپے کا قرض دیا ہے۔’دی کیف پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ قرض جی7 ممالک کی(Extraordinary Revenue Acceleration) پیش رفت کے تحت دیاگیاہے۔ یوکرین اسے ضروری ہتھیاروں کی خریداری کے لیے استعمال کرے گا۔ گزشتہ برس اکتوبر میں جی7 ممالک نے یوکرین کو4.3لاکھ کروڑ کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا،لیکن یوروپی یونین کے2ممالک سلواکیہ اور ہنگری اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔انہوں نے وہائٹ ہاؤس میں دونوں صدور کے درمیان تلخ بحث کے بعدٹرمپ کو مضبوط اور زیلنسکی کو کمزورقراردیا۔
زیلنسکی نے ملے قرض کو یوکرین کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے اور ہتھیاروں کی تیاری کے لیے بھیجے جانے والا بتایا۔دوسری جانب زیلنسکی نے لندن میں طیارے سے اُترنے سے قبل سوشل میڈیا پر کہا تھا کہ یوکرین، امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے،لیکن سیکورٹی ضمانتوں کے بغیر جنگ بندی اُن کے ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوگی۔زیلنسکی28فروری کو ٹرمپ سے ملنے کے لیے امریکہ گئے تھے،جہاں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ،نائب صدر جے ڈی وینس اوروولودیمیر زیلنسکی کے درمیان زوردار بحث ہوگئی۔ بحث میں وہ ایک دوسرے کی جانب انگلی اُٹھاتے دیکھے گئے۔ٹرمپ نے زیلنسکی کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ وہ تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کا جوا کھیل رہے ہیں۔اس کے جواب میں زیلنسکی نے کہا تھا کہ جب آپ جنگ میں ہوتے ہیںتوہرایک کو پریشانی ہوتی ہے۔یہ جنگ مستقبل میں امریکہ کو بھی متاثر کرے گی۔اتنا سنتے ہی ٹرمپ غصے میں آگئے اور کہا، ’ یہ مت بتائیں کہ ہمیں کیا محسوس کرنا چاہیے‘۔ اس کے بعد بہت سے یوروپی رہنما یوکرین کی حمایت میں آکھڑے ہوئے۔ یوروپی ممالک کے علاوہ ناروے، ہالینڈ، پولینڈ،یوروپی یونین،جرمنی،برطانیہ،کناڈا اور آسٹریلیا نے بھی زیلنسکی کی حمایت کا اظہار کیا۔ یوکرینی صدر نے ٹرمپ کے ملک میں اور اُن ہی کے دفتر میں زوردار بحث کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ اپنے ملک کی سالمیت، عزت اور وقار کی قیمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔بھلے ہی سامنے والا شخص سپرپاور امریکہ کا موجودہ تاناشاہ ہی کیوں نہ ہو۔
اس سب کے باوجود امریکہ اور یوکرین کے درمیان مصالحت کی کوششیں جاری ہیں۔ اسی سلسلے میںیوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی امریکی عہدے داروں کے ساتھ سعودی عرب میں ہونے والی سفارتی سطح کی بات چیت سے قبل کراؤن پرنس محمد بن سلمان سے ملاقات کرنے کے لیے سعودی عرب پہنچے۔اُن کی ٹیم اپنے امریکی شراکت داروں کے ساتھ امن کے سلسلے میں کام کرنے کے لیے سعودی عرب میں رہے گی۔ امریکی صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ اسٹیو وٹکاف نے بھی یوکرینیوں کے ساتھ بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یوکرین کے ساتھ امن معاہدہ فریم ورک اور ابتدائی جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری ہے۔وہائٹ ہاؤس میں تلخ کلامی کے بعد ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی امداد روک دی تھی۔امریکہ نے یوکرینی فوج کو انٹلیجنس جانکاری دینا بند کردیا تھا،لیکن بعد میں زیلنسکی کے ذریعہ بھیجے گئے مکتوب سے بے حد خوش ہیں۔انہوں نے اسے مثبت پہلاقدم اور ایک قسم کا معافی نامہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ امریکہ نے یوکرین کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ٹرمپ نے کہا کہ وہ اگلے ڈیڑھ مہینے میں سعودی عرب جا سکتے ہیں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ کافی دنوں سے امریکہ کی نظریں یوکرین کی نایاب معدنیات پر ہیں۔ یوکرین کے پاس 1.90 کروڑ ٹن گریفائٹ ہے۔اس کا استعمال الیکٹرانک گاڑیوں کی بیٹریوں میں کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ٹائی ٹینیم اور میتھیم کا ذخیرہ بھی موجود ہے۔ان کا استعمال دفاعی آلات میں ہوتا ہے۔یوکرین نے امریکہ سے ان معدنیات کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔اسی سلسلے میں معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے زیلنسکی امریکہ گئے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ امریکہ پہلے یوکرین کی سیکورٹی کی گارنٹی دے،جب کہ ٹرمپ کا موقف تھا کہ یوکرین کی حفاظت کی ذمہ داری اب یوروپ کے دیگر ممالک پر ہے۔ امریکہ کے کچھ فوجی یوکرین میں رہیں گے اور وہ جتنی سیکورٹی دے سکتے ہیں،اُتنی ہی دیں گے۔ یہ بات زیلنسکی کو پسند نہیں آئی۔ٹرمپ نے کہا کہ آپ اس وقت بہت اچھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ آپ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔بات اتنی بڑھ گئی کہ امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نے زیلنسکی پر امن معاہدے کی باتیں کرنے اور دل سے اس پر عمل نہیں کرنے کا الزام عائد کردیا۔
اس زمانے میں بغیر کسی مفاد کے کوئی کسی کی مدد نہیں کرتا۔عالمی سیاست بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔کوئی بھی ملک اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنے،انسانیت کی حفاظت یا مدد کرنے کے لیے جنگ میں کسی کا تعاون نہیں کرتا۔یہ بات یوکرین کی سمجھ میں نہیں آئی اور وہ دوسرے ممالک کے سہارے روس کے ساتھ جنگ لڑتا رہا۔اگر زیلنسکی یہ بات سمجھ لیتے کہ روس کے کریمیا کو اپنے ساتھ ملانے سے اُسے دنیا کا کوئی ملک نہیںروک سکا تو ولادیمیر پوتن کے ذریعہ یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے پر کوئی بھی ملک روس کے زیادہ خلاف کیسے جا سکتا ہے؟جب کہ وہ یوکرین کو روس کا حصہ بتاتے آرہے ہیں۔پوتن پہلے ہی صاف کرچکے ہیں کہ وہ روس کی سرحد پر ناٹوکی توسیع برداشت نہیں کریں گے۔ایسے میں اگرکوئی ملک یوکرین کی مددبھی کرے گا تو اس کی ایک حد ہوگی۔کوئی بھی ملک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کی مدد کی۔امریکی دباؤ کی بنا پر اُن یوروپی ممالک کو بھی یوکرین کی مدد کرنے پر مجبور ہوناپڑا، روس کے ساتھ جن کے اچھے تعلقات تھے اور وہ اُنہیں خراب کرنا نہیں چاہتے تھے۔گزشتہ 3برس سے جنگ جاری ہے اور کب تک جاری رہے گی،کہا نہیں جا سکتا۔ روس نے یوکرین کے کافی حصے پر اپنا قبضہ کر رکھا ہے۔ جنگ جاری رہنے پر یوکرین اور اس کے اتحادی ممالک ہی خسارے میں رہیں گے،جب کہ روس کی پوزیشن فائدے والی ہے۔اُمید کی جانی چاہیے کہ امریکہ اور یوکرین مصالحت کر لیں گے اور روس کے ساتھ یوکرین کا امن معاہدہ طے پاجائے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]