اسد مرزا
’’اس سال کے اواخر میں یعنی کہ نومبر 2024 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کئی پہلوسے کافی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اگر سابقہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ فتح یاب ہوتے ہیں یا ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کامیاب ہوتی ہیں تو دونوں ہی شکل میں اس کے اثرات پوری دنیا پر مختلف انداز میں مرتب ہونے کے امکانات ہیں۔ ٹرمپ کی فتح میں منفی اور کملا کی فتح میں تھوڑے بہت مثبت۔
حالیہ برسوں میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہونے والے ہندوستانی نژاد امریکیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال امریکی نائب صدر کملا ہیرس ہیں۔2024 کے امریکی صدارتی انتخابات میں ایک وقت 4 ہندوستانی نژاد امریکی صدارتی دوڑ میں شامل تھے، لیکن اب صرف کملا ہیرس ہی اس دوڑ میں اکیلی رہ گئی ہیں۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان امیدواروں کے سیاسی کیریئر پر۔
کملا ہیرس:58 سالہ کملا ہیرس، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے، ریاست ہا ئے متحدہ کی پہلی خاتون نائب صدر اور امریکی تاریخ کی اعلیٰ ترین خاتون عہدیدار کے ساتھ ساتھ پہلی افریقی ، امریکی اور پہلی ایشیائی امریکی نائب صدر بھی ہیں۔ ہیرس نے 2011 سے 2017 تک کیلیفورنیا کے اٹارنی جنرل کے طور پر اور 2017 سے 2021 تک کیلیفورنیا کی نمائندگی کرنے والے ریاست ہائے متحدہ کے سینیٹر کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔ ہیریس دو تارکین وطن والدین کے یہاں پیدا ہوئیں – ایک سیاہ فام باپ اور ایک ہندوستانی ماں۔ ان کے والد ڈونالڈ ہیرس کا تعلق جمیکا سے تھا، اور ان کی ماں شیاملا گوپالن کینسر کی محقق اور چنئی سے تعلق رکھتی ہیں۔
نکی ہیلی:51 سالہ نکی ہیلی جنوبی کیرولینا کی دو بار گورنر اور اقوام متحدہ میں سابق امریکی سفیر رہ چکی ہیں۔ تارکین وطن پنجابی سکھ والدین کی بیٹی ہیں اور جنوبی کیرولائنا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں نسل پرستانہ طعنوں کو برداشت کرتے ہوئے پلی بڑھی ہیں۔ ان کا پورا نام نمرتا نکی رندھاوا ہے اور وہ ایک کامیاب اکاؤنٹنٹ تھیں جب انھوں نے 2004 میں جنوبی کیرولینا ہاؤس کے سب سے طویل عرصے تک جیتنے والے رکن کو شکست دیتے ہوئے عوامی عہدے کے لیے پہلی مرتبہ فتح حاصل کی۔اس کے بعد تجربہ کار سیاستدانوں کے ایک بڑے شعبے کے خلاف انھوں نے گورنر کے لیے، اپنی 2010 کی فتح کے ساتھ، جنوبی کیرولینا کی پہلی خاتون اور اقلیتی گورنر بنی تھیں۔اس وقت 38 سال کی عمر میں وہ ملک کی سب سے کم عمر گورنر تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے 2012 کے ریپبلکن نیشنل کنونشن میں تقریر کرنے کا مقام حاصل کیا اور 2016 میں صدر براک اوباما کے اسٹیٹ آف دی یونین میں GOP یعنی کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو اپنی پارٹی کا جواب دیا۔
وویک رامسوامی:وویک رامسوامی 37 سالہ ہندوستانی نژاد امریکی ریپبلکن اور بزنس مین ہیں، جنہیں نیویارک میگزین نے ’’اینٹی ووک ان کارپوریشن کا سی ای او‘‘ یعنی کہ مزدور طبقے کے خلاف ذہنیت رکھنے والے شخص کے طور پر تشبیہ دی تھی۔ وہ ہندوستانی تارکین وطن کے بیٹے ہیں، ان کے والد ایک جنرل الیکٹرک انجینئر اور ان کی والدہ ایک جراثیمی نفسیاتی ماہر ہیں۔ رامسوامی سنسناٹی میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے ہارورڈ اور ییل یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور مبینہ طور پر ان کی مالیت $500 ملین سے زیادہ ہے۔
رو کھنہ:رو کھنہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے ایک ہندوستانی نژاد امریکی کانگریس مین ہیں، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ 1976 میں فلاڈیلفیا میں پیدا ہوئے، کھنہ امریکی ایوان نمائندگان میں چار ہندوستانی نژاد امریکی قانون سازوں میں سب سے کم عمر ہیں۔ دیگر میں تین ڈاکٹر امی بیرا ہیں، جو نام نہاد ’’سموسا کاکس‘‘ کے سب سے سینئر ممبر ہیں، راجہ کرشنامورتی اور پرمیلا جے پال کے بارے میں پولیٹیکو میگزین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر بائیڈن انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کھنہ 2024 کی صدارتی دوڑ کے لیے اپنے آپشن کھلے رکھے ہوئے تھے۔ تاہم کھنہ نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ وائٹ ہاؤس کے لیے انتخابات لڑیں گے۔
لیکن آج کے دن ان چاروں امیدواروں میں سے صرف ایک یعنی کہ کملا ہیرس ہی میدان میں رہ گئی ہیں اور باقی سب امیدواروں نے اپنی نامزدگی یا نامزدگی کے دعوے واپس لے لیے ہیں، لیکن اب ریپبلکن پارٹی کے نائب صدر کے عہدے کے لیے ڈونالڈ ٹرمپ نے جس شخص کا انتخاب کیا ہے ان کا آدھا تعلق ہندوستان سے ہے، کیونکہ ان کی اہلیہ اوشا چلوکوری ہندوستانی نژاد ہیں۔
لیکن جے ڈی وینس کی امیدواری کو امریکی عوام اچھے طریقے سے نہیں لے رہے ہیں کیونکہ ایسا کرکے ٹرمپ نے ایک واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر وہ پھر صدر منتخب ہوتے ہیں تو ان کی America First یعنی کہ پہلے امریکہ والی خارجہ پالیسی دوبارہ نافذ کی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی پوری دنیا ٹرمپ اور ان کے نائب صدر کے ذریعے غیر متوقع اقدامات لینے اور غیر مہذب زبان کو سننے کے لیے چار سال تک مجبور ہوجائے گی۔ کیونکہ ٹرمپ کی طرح ہی جے ڈی وینس بھی اپنی تقاریر کے دوران اپنے مخالفین کے لیے سخت اور غیر مہذب الفاظ استعمال کرنے کے عادی ہیں۔
اب جو تصویر ہمارے سامنے آرہی ہے اس میں صرف کملا ہیرس ہی واحد ہندوستانی نژاد سیاست داں ہیں جو کہ اس دوڑ میں ابھی بھی قائم ہیں حالانکہ اب وہ نائب صدر کے بجائے صدر کے عہدے کی امیدوار ہیں۔
کملا ہیرس اچانک صدر کے عہدے کے لیے امیدوار اس وقت بن گئیں جب صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے غیر متوقع طور پر 2024 کے صدارتی انتخابات سے اپنی نامزدگی واپس لے لی۔ اس کی وجہ ان کی بڑھتی ہوئی عمر اور غالباً ان کے الزائمر کے مرض کا شکار ہونا ہے۔ ان کی یادداشت کی وجہ سے پچھلے مہینے سے اب تک ان کی مقبولیت 61% سے گر کر 39% تک آچکی تھی۔
لیکن اس کے باوجود گزشتہ چار سالوں میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران صدر بائیڈن نے ایسے کئی اہم فیصلے کیے جن کا اثر امریکی معیشت اور امریکہ کی خارجہ پالیسی دونوں پر رونما ہوا ہے۔ لیکن ان کے اثرات فوراً ہی ظاہر نہیں ہو ںگے، بلکہ ان کے معاشی فیصلوں کے مثبت اثرات کم از کم دس سے بارہ سال کے عرصے کے بعد اپنا اثر دکھائیں گے،جیسا کہ من موہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیوں نے اپنا اثر دس سال کے بعد دکھایا تھا اور جس کا فائدہ آج بی جے پی اٹھا رہی ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات جے سن فرمن جو کہ اوباما انتظامیہ میں ایک اعلیٰ ماہر اقتصادیات کے عہدے پر فائز تھے ان کے بقول صدر بائیڈن اس وقت اقتدار میں آئے جب امریکی معیشت کووڈ کی زد میں تھی اور انھوں نے اسے ایک ایسی معیشت میں تبدیل کرنے کا کام کیا جو اب کسی بھی دوسری معیشت سے زیادہ تیزی سے ترقی پذیر ہے اور اس کی وجہ سے امریکی افراطِ زر میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
انھوں نے عالمی سپلائی چینزکو ختم کرنے کے لیے انتظامی اقدامات کی ایک نئی مہم شروع کی اور ایک ٹریلین ڈالر کے دو طرفہ بنیادی ڈھانچے کے پیکیج کا اعلان کیا جس نے کہ نہ صرف پرانے امریکی انفرااسٹرکچر کو تبدیل کیا بلکہ انٹرنیٹ پر عوام کی رسائی کو بہتر بنایا اور کمیونٹیز کو موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کیا۔ 2022میں صدر بائیڈن اور ان کے ساتھی ڈیموکریٹس نے دو اقدامات کی پیروی کی جس سے امریکی مینوفیکچرنگ شعبے کے مستقبل کو تقویت ملی۔ان کے CHIPS اور سائنس ایکٹ نے نئی فیکٹریوں کی تعمیر اور کمپیوٹر چپس کو مقامی طور پر بنانے کے لیے 52 بلین ڈالر فراہم کیے اور یہ سب انہوںنے اس لیے کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ امریکہ کو اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار جدید ترین سیمی کنڈکٹر تک بآسانی رسائی حاصل ہوسکے۔مجموعی طور پر انھوں نے امریکہ کو اپنے دورِ اقتدار میں ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ امریکی معیشت اب دوبارہ چین سے مقابلہ کرنے کی حامل ہوسکے۔
اگر کملا ہیرس امریکہ کی صدر بن جاتی ہیں تو پھر برطانیہ، کناڈا، آئر لینڈ، اسکاٹ لینڈ کے بعد امریکہ بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا جہاں پر کہ ہندوستانی یا ایشیائی نژاد افراد ان ملکوں کے اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوسکے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
امریکی صدارتی انتخابات کچھ نئے زاویے: اسد مرزا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS