امریکی صدارتی الیکشن: کیسے غیرمعمولی ہے نتیجہ

0

اودھیش کمار

ڈونالڈ ٹرمپ کا امریکی صدارتی الیکشن جیتنے کا تجزیہ ابھی طویل عرصہ تک جاری رہے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے ساتھ امریکہ نے بھی تاریخ بنادی۔ ہر الیکشن میں ایک فریق جیتتا اور دوسرا ہارتا ہے لیکن اس کے معنی ہوتے ہیں۔ امریکی صدارتی الیکشن میں ڈونالڈ ٹرمپ کی فتح اور ڈیموکریٹ کملا ہیرس کی شکست کے ساتھ امریکی تاریخ میں ایک نئے دور کی شروعات ہوئی ہے۔

جس ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ میں صرف ڈیموکیٹ ہی نہیں ان کی اپنی پارٹی، میڈیا، سرمایہ داروں، تھنک ٹینک، یونیورسٹیز وغیرہ کا ایک بڑا طبقہ ختم کرنے کے لیے پوری طاقت لگاچکا ہو، وہ واپس آکر ان سب کو چیلنج دے اور جیت کا جھنڈا گاڑ دے تو اسے کسی نقطہ نظر سے معمولی واقعہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ ووٹنگ ختم ہونے کے ساتھ ہی ٹرمپ نے لکھا کہ آج رات امریکہ کے لوگوں نے تبدیلی کے لیے واضح رائے عامہ دی۔ سمجھا جارہا تھا کہ ٹرمپ اور کملا ہیرس کے مابین سخت مقابلہ ہے۔ نتائج نے اسے غلط ثابت کردیا۔ ٹرمپ نے اپنے مظاہرہ کو بہتر بنایا اور کملاہیرس گزشتہ الیکشن میں بائیڈن کے ووٹ کی بھی برابری نہیں کرپائیں۔ 2020میں جس جارجیا سے ٹرمپ انتہائی کم فرق سے ہارے تھے، جب وہاں کا نتیجہ ان کے حق میں آیا، پھر نارتھ کیرولینا سے ان کی حمایت کا نتیجہ آیا تو ایسا محسوس ہواکہ امریکہ کے عوام کا سیاست اور ملک کے حوالے سے نفسیات تبدیل ہوئی ہے۔

سوئنگ سمجھی جانے والی دیگر ریاستوں پینسلوینیا، ایریزونا، مشیگن، وسکانسن اور نیواڈا میں بھی ہیرس کو متوقع حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ٹرمپ نے الیکٹرل کے علاوہ پاپولر ووٹوں کے معاملہ میں بھی کامیابی حاصل کی جو ان کی 2016کی جیت سے الگ کہانی بتاتی ہے۔ امریکہ میں ری پبلکن پارٹی نے 1992کے بعد ایسا مظاہرہ کبھی نہیں کیا تھا۔ امریکی تاریخ میں صرف 1892 میں گروور کلب لینڈ ہی ایسے صدر ہوئے جو 4برس کے بعد پھر سے منتخب ہوئے۔ اس طرح ٹرمپ امریکی تاریخ کے ایسے دوسرے شخص بن گئے ہیں۔ حقیقت میں متعدد نقطہ نظر سے یہ غیرمعمولی نتیجہ ہے۔ ٹرمپ کو جمہوریت مخالف، فاشسٹ ثابت کرنے کے لیے مخالفین نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مجرمانہ الزامات کے مقدمے بھی چلے۔ امریکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا جب ڈیموکریٹک آخری مرحلہ میں جوبائیڈن کو امیدوار کی دوڑ سے ہٹاکر کملاہیرس کو سامنے لایا۔ دولت کے معاملہ میں بھی کملا ہیرس ٹرمپ سے بہت آگے نکل گئیں۔ میڈیا نے ایسا ماحول بنایا جیسے ٹرمپ پیچھے رہ گئے ہیں۔ نتیجہ کیا آیا؟ صدارتی انتخابات ہی نہیں سینیٹ میں بھی ری پبلیکن کو اکثریت حاصل ہوئی اور ایوان نمائندگان میں بہتر حالت میں آئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ کے لوگوں نے ایسا مینڈیٹ دیا تاکہ ٹرمپ اپنے اعلانات یا ایجنڈے میں کسی طرح کی بڑی رکاوٹ کا سامنا کرنے سے محفوظ رہیں۔ معاشرہ کے جس طبقہ کی حمایت ڈیموکریٹ کو ملنے کی روایت رہی ہے، ان میں بھی ٹرمپ داخل ہوچکے ہیں۔

سروے کے مطابق خواتین کے ووٹ کملاہیرس کی حمایت میں رہے، لیکن بائیڈن کو حاصل ووٹوں سے وہ پیچھے ہی رہیں۔ نسلی، لاطینی امریکیوں، ایشیائی گروپوں میں سے بھی تقریباً ایک تہائی رائے دہندگان نے ٹرمپ کے لیے ووٹ دیا۔ہاں، سفیدفام رائے دہندگان کی حمایت میں معمولی کمی واقع ہوئی۔ یہ سارے حقائق بتاتے ہیں کہ امریکی رائے ٹرمپ کے حوالہ سے کتنی تبدیل ہوئی ہے۔ سچ کہیں تو ٹرمپ نے ری پبلکنز کے ساتھ ملک کی سوچ بدلنے اور سیاست میں نئے چہروں کو کھڑا کرکے جیت یقینی بنائی۔ ڈیموکریٹ خود کو انتہائی لبرل یا بائیں بازو کا ثابت کرنے کے لیے جو کچھ کرتے رہے اسے عام لوگوں نے آسانی سے قبول نہیں کیا۔ حیران کن طور پر جسمانی مشقت کرنے والے مزدوروں اور کم آمدنی والے طبقہ کے لوگوں کی حمایت ری پبلکن میں بڑھی ہے۔ ڈیموکریٹ ایلیٹ اور خواندہ طبقہ کے ایک گروپ اور ہالی ووڈ و تھنک ٹینک کے درمیان اپنی پہچان بنائی اور پالیسی کے لیے سمٹتی گئی ہے۔ لوگوں نے تسلیم کیا کہ وہ جو آواز اٹھارہے ہیں وہ امریکہ کا اجتماعی جذبہ نہیں ہے۔ بائیڈن کی مدت کار میں اندرونی طور پر امریکہ کمزور ہوا، عالمی سطح پر بھی اس کی شبیہ داغ دار ہوئی۔ حالاں کہ سروے میں زیادہ تر رائے دہندگان کی تشویش عالمی یا خارجہ پالیسی نہیں تھی۔ یعنی امریکی لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہوئی ہیں۔ ٹرمپ کا ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ یعنی ’ماگا‘ لوگوں کے دلوں میں اُتر گیا۔ غیرقانونی دراندازی، بڑھتی مہنگائی، بین الاقوامی سطح پر جنگ اور عدم استحکام کو انہوں نے بڑا ایشو بنایا اور لوگوں کو یہ اپیل کرگیا۔

دراصل 2021میں ہی نظر آگیا تھا کہ امریکہ میں ٹرمپ ازم کا نیا دور شروع ہوچکا ہے جسے وسیع پیمانہ پر حمایت حاصل ہے، روایتی ڈیموکریٹ، ایلیٹ، انتہائی لیفٹ لبرل سیاست کی حمایت کم ہورہی ہے۔ امریکی انتخابی مہم میں بالکل وہی ٹرمپ منظرنامہ، الزامات در الزامات اور ایشوز تھے، جو ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں۔ یعنی ٹرمپ کا آنا جمہوریت کے لیے خطرناک ہوگا، اظہاررائے کی آزادی- مذہبی آزادی ختم ہوجائے گی، اقلیتوں کے حقوق ختم کردیے جائیں گے، آئین کمزور ہوگا اور عالمی سطح پر جنگ اور کشیدگی کا خطرہ زیادہ بڑھے گا۔ امریکہ کی تبدیل ہوئی نفسیات میں ان کو پہلے کی طرح حمایت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ ٹرمپ نے اس کے برعکس کہا کہ میری 4سال کی مدت کار میں کوئی جنگ نہیں ہوئی، میں جنگ کا نہیں امن کا حامی ہوں، لیکن پیس وِد اسٹرینتھ۔

ٹرمپ نے اپنی مدت کار میں امریکی معیشت میں بہتری، خارجہ پالیسی میں حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔ مغربی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سیاسی تعلقات قائم ہوں گے، اس کا تصور نہیں تھا جو انہوں نے کردکھایا۔ ہندوستان کے لیے اس سے بہتر نتیجہ امریکی صدارتی الیکشن میں کچھ نہیں آسکتا۔ بنگلہ دیش کے تعلق سے انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کی سخت تنقید کی۔ اس کا اثر نظر آئے گا۔ انہوں نے ووٹ کے لیے ہی سہی اگر ہندوؤں کی حمایت میں بیانات دیے اور ان کی حفاظت اور ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا تو وہ اس سے پیچھے ہٹیں گے ایسا فوری طور پر ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس طرح مان کر چلنا چاہیے کہ ان کی مدت کار میں امریکہ-ہندوستان تعلقات مضبوط ہوں گے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS