ایم اے کنول جعفری
دنیا کی عظیم طاقت امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اپنے اقتدار کے دوسرے دورانیے میںباربار اپنے فیصلوں سے پلٹنے کا ریکارڈ بنا رہے ہیں۔اُنہیںاقتدار میں آئے تقریباً 200روز ہوئے ہیں، لیکن ان کا یہ دورحکومت غیر مستحکم، بحران اور یوٹرن سے بھراپڑا ہے۔ٹرمپ حکومت نے اب تک ریکارڈ 178ایگزیکٹیو آرڈر س پر دستخط کیے،یعنی ہرروز ایک نیا حکم!ان میں34فیصلے ایسے ہیں،جو خود ٹرمپ نے پلٹ دیے۔ان میں ریسرچ فنڈنگ پر روک کے حکم کو محض 3روز میں پلٹنا، گیس اور انرجی کے زمرے میں دی گئی راحتوںکو واپس لینے کے فیصلے پر2ہفتے بعد یوٹرن لینا، کریک ڈاؤن سے لے کر ٹیرف اور ایل جی بی ٹی کیو پلس افسران تک اپنے احکام سے کئی مرتبہ یوٹرن لینا شامل ہیں۔ اسی وجہ سے صنعتی دنیا میں سب سے زیادہ الجھاؤ اور غیراطمینانی کی صورت حال ہے۔ ان فیصلوں کی تیزی اورتضادات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالتوں میں ٹرمپ حکومت کے احکامات کے خلاف معاملے درج ہونے کی باڑھ سی آگئی ہے۔ امریکی وفاقی عدالتوں پر اچانک فیصلہ پلٹنے اور قانونی مخالفت کا دباؤ بڑھ گیا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ نے’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کے نام پر جو فیصلے لیے، ان پر یوٹرن لے کر انتظامیہ کو الجھن اور عوام کو الجھاؤ کی صورت حال میں ڈال دیا۔ ٹرمپ کے خلاف ریاستی حکومتوں، یونیورسٹیز، سماجی اداروں اور شہریوں کی جانب سے 329 معاملے درج کیے جا چکے ہیں۔ان میں سب سے زیادہ 78 فنڈنگ کٹوتی کے ہیں۔منتقل اورجلاوطنی کے67،برخاستگی کے 47، ڈوجی کے27، ماحولیات و ٹرانس جینڈر حقوق کے17-17،ٹیرف کے12 اور 47 دیگر معاملے درج ہیں۔ان کے خلاف پہلے 100دنوں میں 220 مقدمات درج ہو چکے تھے۔
ٹرمپ کے ذریعہ بغیر سوچے سمجھے لیے گئے فیصلوں پر عدالت بھی سخت ہے اور220سے زیادہ معاملوں میں ’اسٹے‘ دے چکی ہے۔وفاقی عدالتوں نے زیادہ تر معاملوں میں سماعت کرتے ہوئے پالیسیوں کوغیرقانونی یا جلدبازی میں لیے گئے فیصلے بتایا۔ ٹیرف پالیسیوں میں سب سے زیادہ عدم استحکام کی صورت حال پائی گئی۔ ٹرمپ ٹیرف سے جڑے28 فیصلوں میں پیچھے ہٹ گئے۔ کناڈا اور چین جیسے کاروباری شراکت داروں پر ٹیرف کے اعلان کے بعد بازارمیں عدم استحکام اور سفارتی دباؤ نے ٹرمپ کو کئی مرتبہ پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔وہ ٹیرف کی ڈیڈ لائن پر3مرتبہ پلٹے۔ پہلی مرتبہ ڈیڈ لائن 9 جولائی،پھر یکم اگست کی اور پھر ایک ہفتے کے لیے ٹال دیاگیا۔ دواسازی اور تانبے پر دی گئی چھوٹ پربھی ٹرمپ کئی مرتبہ یوٹرن لے چکے ہیں۔ٹرمپ نے 9جولائی کو یوکرین کی فوجی امداد روک دی،لیکن پھر10 پیٹری ایٹ میزائلیں اور دیگر فوجی امداد بھیجنے کا حکم دیا۔غزہ میں24گھنٹے میں جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا، لیکن صدر منتخب ہونے کے6مہینے بعد بھی اسے روک نہیں پائے۔ 4فروری کو غزہ کے لوگوں کو پھر سے آباد کرنے کی بات کہی، لیکن 21فروری کو مکر گئے۔12مارچ کو پھر پلٹ گئے۔ 22 جنوری کو غیرقانونی طریقے سے ملک میں رہ رہے لوگوں کی ملک بدری کا حکم دیا،لیکن عدالت کے خوف سے حکم نامہ رد کرکے پھر سے نئے احکامات دیے۔
عجیب مزاج کے ٹرمپ اپنی من مرضی سے ٹیرف لگاکر اپنی داداگیری کے کردار کو پیش کرتے ہیں، تو سفارتی اور سیاسی دباؤ کی بنا پر خود ہی کچھ مدت کے لیے ٹال دیتے ہیں یا پھر واپس لینے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ٹیرف کی دھمکی سے دنیا بھر کے ممالک پریشان و بدظن ہیں۔ ہندوستان بھی اسی صف میںکھڑا ہے۔ایک طرف ڈونالڈ ٹرمپ وزیراعظم نریندر مودی کو اپنا نزدیکی دوست بتاتے ہیں تو دوسری طرف ہندوستان پر ٹیرف لگانے کا اعلان کرکے حیرت زدہ بھی کرتے ہیں۔30جولائی کو ٹرمپ نے اعلان کیا کہ یکم اگست سے ہندوستان سے برآمد ہونے والی اشیا پر 25فیصد درآمداتی ٹیرف لگایاجائے گا۔ اتنا ہی نہیں اس نے روس سے تیل کی خریداری کرنے پر الگ سے جرمانہ عائد کرنے کااعلان بھی کیا۔امریکی صدر نے اپنے ذاتی سوشل میڈیا پلیٹ فارم’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری بیان میں کہا کہ ہندوستان ہمارا دوست ہے،لیکن وہ امریکی مصنوعات پر بہت زیادہ محصولات عائد کرتا ہے،جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ ہندوستان نے ہمیشہ ہی امریکہ کے ساتھ تجارت کو مشکل بنانے کے لیے انتہائی سخت اور ناقابل برداشت غیرمالیاتی رُکاوٹیں کھڑی کی ہیںجس کی بنا پر دوطرفہ تجارت محدود رہی۔ٹرمپ نے ماضی میں بھی ہندوستان پر تنقید کی تھی مگر بطور صدر2025میں یہ پہلا بڑا تجارتی اقدام ہے۔ ہندوستان امریکہ کے لیے ایک ابھرتی ہوئی منڈی ہے، لیکن ہندوستان کے بھاری محصولات کے ساتھ امریکہ کا تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔بقول امریکہ اس نے ہندوستان کے ٹیرف بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ کئی دہائیوں میں بہت کم تجارت کی ہے۔
2024میں ہندوستان اور امریکہ کا تجارتی حجم کم و بیش191اَرب ڈالر رہا۔اس میں ہندوستان نے امریکہ کو 118 ارب ڈالر کی مصنوعات برآمد کیں، جب کہ امریکہ ہندوستان کو تقریباً 73ارب ڈالر کی مصنوعات ہی برآمد کرسکا۔اس طرح امریکہ کو ہندوستان کے ساتھ تقریباً45ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ رہا۔ ہندوستان امریکہ کو ٹیکسٹائل، دواسازی، زیورات،انجینئرنگ مصنوعات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خدمات برآمد کرتاہے، جب کہ امریکہ ہندوستان کو طیارے،دفاعی آلات، سافٹ ویئر اور توانائی سے متعلق اشیا فراہم کرتا ہے۔ بقول امریکہ یہ عدم توازن ختم کرنے کا وقت ہے۔ دوسری جانب ہندوستان نے صاف کیا کہ وہ امریکہ کی جانب سے جرمانہ عائد کرنے کی دھمکیوں کی پروا نہیں کرتے ہوئے روس سے تیل کی خریداری جاری رکھے گا۔تیل خریدنے کے حوالے سے نہ تو ہندوستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی تیل کمپنیوں کو اس سلسلے میں کسی طرح کی ہدایات دی گئی ہیں۔افسران کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی دھمکیوں کا ہندوستان پر کوئی اثرہونے والا نہیں ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ٹیرف کے نئے دور میں ہندوستان روس سے خام تیل کی درآمد بند نہیں کرے گاتو اس پر اضافی جرمانہ لگایاجائے گا۔ ہندوستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ مختلف ممالک کے ساتھ ہندوستان کے دوطرفہ تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے نظریے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ دھمکی دینے والے ٹرمپ نے تیل کی سپلائی پرابھی جرمانہ طے نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ دوطرفہ تجارتی معاہدے کے حوالے سے ہندوستان پر دباؤ بنانے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔روسی تیل کے دو دیگر بڑے درآمد کنندگان چین اور ترکی کو ایسے کسی جرمانے کا سامنا نہیں ہے۔ہندوستان اپنی کل سپلائی کا35فیصد خام تیل روس سے درآمد کرتا ہے۔ ہندوستان روزانہ 20لاکھ بیرل سے زیادہ خام تیل کی خریداری کرنے والا چین کے بعد سب سے بڑا ملک ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پارلیمانی حلقے وارانسی کی اسمبلی سیٹ سیواپوری کے گاؤں بنولی میں منعقد جلسہ عام میں خطاب کے دوران ٹرمپ کی ٹیرف وار کے خلاف احتجاج میں ’سودیشی‘کا بگل بجاتے ہوئے شہریوں، سیاسی جماعتوں، صنعت کاروں اور کاروباری دنیا سے ’ووکل فار لوکل‘ اور’ میک ان انڈیا‘ کو فروغ دینے کی گزارش کی۔کہا کہ اب نیا سامان ’سودیش‘ ہی خریدیں۔گھر سجائیںتو سودیشی سے اور زندگی بڑھائیںتو سودیشی سے۔ آنے والے دنوں اور تہواروں کے مواقع پر ہم وہی سامان خریدیں،جس میں کسی نہ کسی ہندوستانی کی محنت اور پسینہ لگاہو۔ ہر بات میں سودیشی کا احساس ملک کا مستقبل طے کرے گا۔ یہ ملک کی سچی خدمت ہوگی اور مہاتماگاندھی کو بڑا خراج عقیدت بھی۔وزیراعظم نے کہا کہ عالمی معیشت کئی خدشات سے گزررہی ہے۔ہر طرف عدم استحکام کا ماحول ہے۔تمام ممالک اپنے اپنے مفادات پر توجہ دے رہے ہیں۔ایسے میں جب ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے جا رہا ہے تو ہمیں بھی اپنے اقتصادی مفادات کو لے کر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
jafrikanwal785@gmail.com